الیکس ڈی جونگ
دنیا بھر میں معروف مارکسی رہنما ارنسٹ مینڈل کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ سو سال قبل پیدا ہوئے اور 1995ء میں وفات پائی۔ مندرجہ ذیل مضمون اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ مضمون معروف امریکی جریدے جیکوبن میں شائع ہوا۔ قارئین جدوجہد کی دلچسپی کے لئے اسے حسنین جمیل فریدی نے ترجمہ کیا ہے۔ ارنسٹ مینڈل بارے طارق علی کی ایک تحریر ماضی میں جدوجہد شائع کر چکا ہے، جسے اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔
بلجیم کے سوشلسٹ دانشور اور کارکن ارنسٹ مینڈل آج سے ایک سو سال قبل 5 اپریل 1923ء کو پیدا ہوئے تھے۔ مینڈل ایک زبردست انقلابی اور اسکالر تھے، جنہوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران مارکسی نظریہ کی کچھ اہم ترین تصانیف تحریر کیں۔ مینڈل کو آج شاید سب سے زیادہ ان کی کتاب ’لیٹ کیپٹلزم‘ (Late Capitalism) کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب سے نکلنے والی یہ اصطلاح اب مقبول عام ہوچکی ہے۔ معروف نقاد فریڈرک جیمسن نے اپنی پوسٹ ماڈرن تھیوری ترتیب دینے کے عمل میں مینڈل کی معاشی تحریروں پر بہت زیادہ توجہ مبذول کی جبکہ’لیٹ کیپیٹلزم‘ ثقافتی تجزیہ کے لیے ایک معروف اور عام فہم صحافتی اصطلاح بن گئی ہے، لیکن ’لیٹ کیپیٹلزم‘ کااہم مقصد سرمایہ داری کے ثقافتی ضمنی اثرات کا تجزیہ کرنے کے بجائے اس کے طاقت کے ڈھانچے کو چیلنج کرنا تھا۔
مینڈل بلجیم کے شہر انٹورپن میں جرمن پس منظر کے حامل پولش یہودیوں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہنری مینڈل، بائیں بازواور خاص طور پر لیون ٹراٹسکی کے نظریات اور خیالات سے ہمدردی رکھتے تھے۔ 1930ء کی دہائی کے دوران، جرمنی میں نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد، مینڈل کا گھر بائیں بازو کے پناہ گزینوں کے میل ملاقات کی ایک جگہ بن گیا تھا۔ ان کے گھر میں موجود ایسے پناہ گزینوں کو سوشلزم، سوویت یونین میں ہونے والی تازہ ترین پیشرفت اور فاشزم کے عروج پر گفتگو کرتے ہوئے سن کر نوجوان ارنسٹ کو کٹر انقلابی سیاست سے ابتدائی تعارف ہوا۔
بلجیم میں جنگ کا آغاز مئی 1940ء میں اس وقت ہوا، جب نازی جرمنی نے اس ملک پر حملہ کیا۔ اس وقت کا بایاں بازو نئی صورتحال کا جواب دینے سے قاصر تھا۔ سوشل ڈیموکریٹک بلجین لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینوں کے بہت سے رہنما ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے جبکہ لیبر پارٹی کے سابق رہنما ہینڈرک ڈی مین نے قابضین کے ساتھ تعاون پر زور دیا۔ سوویت جرمن عدم جارحیت کا معاہدہ اس وقت بھی نافذ تھا جبکہ بلجیم کے کمیونسٹوں نے ’حتمی اور مکمل غیر جانبداری‘ کے موقف کا اعلان کر دیا۔ نازی حملے شروع ہونے کے ہفتوں بعد، سوویت یونین کے حکم پر کام کرنے والے ایک شخص نے ٹراٹسکی کو میکسیکو کی جلا وطنی میں قتل کر دیا۔
انتشار کی اس صورتحال کے درمیان، بائیں بازو کے ایک آزاد گروپ نے انڈر گراؤنڈ رہتے ہوئے فلیمش زبان کا پہلا اخبار شائع کرنا شروع کیا جو مینڈیل کے گھر میں تیار کیا گیا تھا۔ ارنسٹ اور ان کے والد نے اس اخبار میں بہت سے مضامین لکھے۔ اگست 1942ء میں ارنسٹ انڈر گراؤنڈ چلے گئے، تاہم اس سال کے آخر میں انہیں گرفتار کر لیا گیا…لیکن جیل جاتے ہوئے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
مینڈل کے سوانح نگار جان ولیم اسٹٹجے کے مطابق، ہنری مینڈل نے اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے تاوان ادا کیا تھا۔ ارنسٹ کی ’جرات مندانہ اڑان‘ کو ’پوچھ گچھ سے بچنے کے لیے ایجنٹوں نے خود فرار کا رنگ دیا ہو گا‘۔ ان کے مطابق مینڈل کے فرار نے انہیں احساس جرم سے دوچار کر دیا۔
بے خوف مینڈل نے اس وقت تک اپنی مزاحمتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ وہ ٹراٹسکی اسٹ انقلابی کمیونسٹ پارٹی (RCP) میں شامل ہو گئے۔ 1944ء کے اوائل میں ’RCP‘ نے جرمن اور امریکی کارپوریشنوں کے درمیان رابطوں کے بارے میں دو زبانوں میں ایک پمفلٹ تیار کیا، جس میں جرمن فوجیوں کو براۂ راست مخاطب کر کے کہا گیا کہ ’آپ کو توپ کے چارے کے طور پر قربان کیا جا رہا ہے جبکہ آپ کے آقا اپنا مال بچانے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔‘ تاہم 28 مارچ 1944ء کو پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے مینڈل کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
یہودی ہونے کے باوجود انہیں مزاحمتی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ مینڈل کو مختلف جیلوں اور کام کرنے والے کیمپوں میں بھیجا گیا۔ ایک موقع پر انہیں آئی جی فاربن کی کیمیکل فیکٹری میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مینڈل، ایک مزاحمتی رکن، ایک یہودی اور ٹراٹسکی اسٹ، جنہیں ان کے سٹالنسٹ ساتھی قیدیوں نے بھی حقارت بھری نظروں سے دیکھا، ان کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہو چکے تھے۔
مینڈل کو بعد میں احساس ہوا کہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی، جو وہ اس سب سے گزرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مینڈل نے اپنی کامیابی کا سہرا کچھ جرمن جیل وارڈروں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو بھی قرار دیا، جو نازیوں کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی تھے۔ ’زندہ رہنے کے لئے یہی بہتر تھا‘۔ سخت حالات کے باعث مینڈل کی صحت بہت بگڑ گئی۔ مینڈل کو 1945ء کے اوائل میں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ 25 مارچ 1945ء کو امریکی افواج نے اس کیمپ کو آزاد کرایا جس میں انہیں رکھا گیا تھا۔
اگرچہ مینڈل کے براۂ راست خاندان کے افراد جنگ میں بچ گئے، لیکن ان کی دادی، خالہ اور چچا سبھی اپنے خاندانوں سمیت آشوٹزمیں مارے گئے۔ ہنری مینڈل نے اپنے بیٹے کے لیے تعلیمی کیریئر کا خواب دیکھا، لیکن ارنسٹ کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ وہ سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد جاری رکھنا چاہتے تھے، جس نے نازی ازم اور جنگ کی ہولناکیوں کو جنم دیا تھا۔
لیون ٹراٹسکی اور ان کے حامیوں نے 1938ء میں فورتھ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی تھی۔ ٹراٹسکی کو توقع تھی کہ آنے والی جنگ سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹیوں کو مزید کمزور کرے گی اور امید ظاہر کی کہ فورتھ انٹرنیشنل ایک متبادل کے طور پر سامنے آئے گی۔ تاہم، نازی جرمنی کو شکست دینے میں سوویت یونین کے اہم کردار اور یورپ کی مزاحمتی تحریکوں میں کمیونسٹوں کی شرکت نے ان جماعتوں کو بے مثال وقار اور مقبولیت بخشی، جس سے ان کے حریفوں کو محنت کشوں کی تحریک کے متحرک ترین حلقے کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کے محدود مواقع ملے۔
دریں اثنا، جنگ اور جبر نے فورتھ انٹرنیشنل سے وابستہ چھوٹے گروپوں کو تباہ کر دیا تھا۔ مینڈل نے محسوس کیا کہ ٹراٹسکی اسٹ تحریک کی تعمیر میں مدد کرنا ان کا فرض ہے، لہٰذا اس تحریک میں وہ ایک سرکردہ کارکن بن گئے۔ مینڈل جزوی طور پر اپنے ان کامریڈز کی یاد سے متاثر تھے جنہیں نازیوں نے قتل کیا تھا، جیسے کہ ان کے قریبی دوست ابرام لیون، جو یہودی تاریخ اور یہود دشمنی بارے ایک اہم کتاب کے مصنف تھے۔
بہت سے بنیاد پرستوں کی طرح مینڈل کا بھی خیال تھا کہ جنگ یورپ میں انقلابات کی لہر کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، جیسا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ ٹراٹسکی نے 1938ء میں فورتھ انٹرنیشنل کے لیے جو پروگرام تیار کیا تھا اس میں بھی اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ سرمایہ داری ختم ہو چکی ہے: ’بنی نوع انسان کی پیداواری قوتیں جمود کا شکار ہیں۔ پہلے ہی نئی ایجادات اور بہتر ی مادی دولت کی سطح کو بلند کرنے میں ناکام ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سماجی بحران کے حالات، اجتماعی بحران کی شکل میں عوام کو پہلے سے زیادہ شدید محرومیاں اور مصائب کا شکار کرتے ہیں۔‘
سوشلسٹ حکمت عملی اور بلجیم کی عام ہڑتال
وقت کے ساتھ ساتھ مینڈیل کو اندازہ ہو چکا تھاکہ یہ نظام نہ صرف کام کرتا رہے گا، بلکہ 1945ء کے بعد معاشی ترقی کے ایک طویل دور میں داخل ہونے کے بعد مزید ترقی کرنے کے قابل بھی تھا۔ ان حالات میں مینڈل نے اپنی ٹراٹسکی اسٹ شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے بلجیم کی سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ہفتہ وار اخبار ’La Gauche‘ کو تیار کرنے میں مدد کی۔ یہ اخبار بلجیم میں سوشلسٹ بائیں بازو پر اثرانداز ہوا۔
اس عرصے میں مینڈل ایک سوشلسٹ نظریہ دان اور رہنما کے طور پرسامنے آئے۔ 1962ء میں مینڈل نے اپنا پہلا بڑا نظریاتی کام ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘ کتابی شکل میں شائع کیا۔ ان کی اس کتاب نے اپنے موضوع کو ایک منظم انداز میں پیش کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’عصری سائنس کے سائنسی اعداد و شمار‘ کو سامنے لاتے ہوئے ’کارل مارکس کے پورے معاشی نظام کو دوبارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے‘۔
کتاب کے تعارف میں مینڈل نے اپنے نقطہ نظر کو ’جینیاتی ارتقائی‘ (Genetico-Evolutionary) کے طور پر بیان کیا، جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے موضوع کی ابتدا اور ارتقا کے مطالعہ میں مصروف ہے۔ مینڈل نے لکھا کہ ”مارکسسٹ معاشی نظریہ،“ کو ”ایک طریقہ کا خلاصہ، اس طریقہ کار کو استعمال کرنے سے حاصل ہونے والے نتائج اور ان نتائج کا جو مسلسل دوبارہ جانچ پڑتال سے مشروط ہیں“ کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے۔ تاریخ اور نظریہ کا امتزاج، نئی دریافتوں کو یکجا کرنے کی مسلسل کوشش اور مینڈل کے کام کی خصوصیت ہو گی۔
مارکسسٹ اکنامک تھیوری، جس کا انگریزی ترجمہ آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے، تحریر کرتے ہوئے مینڈل نے ’La Gauche‘ کے گرد ایک گروہ جمع کر لیا۔ اس گروپ کی حکمت عملی تھی: ’سرمایہ داری مخالف ساختی اصلاحات‘۔ اس سے مینڈل کی مراد ایسی اصلاحات تھیں جو سوشلزم کو متعارف نہیں کرائیں گی لیکن اس کے باوجود سوشلزم کی طرف قدم ثابت ہوں گی اور فیصلہ کن طور پر مزدور طبقے کو بڑے سرمائے کو کمزور کرنے کی صلاحیت فراہم کریں گی۔
مینڈل کے لیے بلجیم میں ممکنہ سرمایہ دارانہ ساختی اصلاحات کے لئے ضروری تھا کہ پلاننگ بیورو تشکیل دیا جائے جو مکمل روزگار، بڑی کارپوریشنوں پر عوامی کنٹرول اور توانائی کے شعبے کو قومیانے کی ضمانت دے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اقتصادی اصلاحات کو سیاسی طاقت کے معاملے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
مینڈل ایک سوشلسٹ حکمت عملی بنانے کی کوشش کر رہے تھے جو بلجیم جیسے انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک کے لیے موزوں ہو سکتی تھی۔ اس کوشش کے لیے تحریک کا ایک قدم دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف 1960ء کے موسم سرما میں بلجیم کی عام ہڑتال تھی۔ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی اس ہڑتال میں لاکھوں مزدور شامل تھے۔ بائیں بازو کے پاپولر فرنٹ کے اقتدار میں آنے کے بعد جون 1936ء کی فرانسیسی ہڑتالیں اور فیکٹریوں پر قبضے، مینڈیل کی نظر میں ایک ماڈل تھے۔
معاشی ترقی کے باعث، دوسری عالمی جنگ کے بعد،بہت سے لوگوں کے حالات زندگی میں بہتری آئی تاہم بلجیم کی عام ہڑتال جیسی جدوجہد نے باور کروایا کہ سرمایہ دارانہ ترقی نے محنت کش طبقے کو مکمل طور پر مطمئن نہیں کیا۔ مینڈل کے مطابق سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں محنت کشوں کے لئے سب سے طاقتور ہتھیار تنظیم، سیاسی تعلیم اور ان کے لازمی معاشی کردار کے بارے میں آگاہی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ محنت کشوں کی جدوجہد صرف معاشی حالات کے گرد نہیں گھومتی تھی بلکہ یہ الگ تھلگ اور جابرانہ کام کے طریقوں کے خلاف مزاحمت سے بھی چلتی ہے۔ یہاں تک کہ نسبتاً اچھے حالات میں کام کرنے والے محنت کشوں نے بھی کام کی جگہ پر بیگانگی اور تسلط کی شکایت کی۔ 1960ء کی ہڑتال کی بیلنس شیٹ میں مینڈل نے لکھا کہ سرمایہ داری کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد ’ماضی کی سماجی جدوجہد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ نہ صرف ضروری بلکہ فوری مفادات کی لڑائی ہے‘۔ ان کے نزدیک یہ جدوجہد ’معاشرے کی تشکیل نو کے لیے شعوری لڑائی‘ بن سکتی ہے۔
مینڈل نے دلیل دی کہ بلجیم کی ہڑتال ایک کھویا ہوا موقع تھا کیونکہ اس طرح کی تنظیم نو کی تجویز دینے کے لیے کوئی سیاسی قیادت موجود نہیں تھی۔ انقلابی تبدیلی کے لیے معاشی اصلاحات کی جدوجہد کو سیاسی طاقت کے سوال تک بڑھانا ضروری تھا۔
مینڈل کے لیے جدوجہد صرف اسی صورت میں فتح یاب ہو سکتی ہے جب ’مخالف کا مقابلہ نہ صرف فیکٹریوں میں بلکہ گلیوں میں بھی ہو۔ تاریخ نے اس بات پر مُصر رہی ہے کہ ایک انقلابی پارٹی کے قیام کی ضرورت ہے جو محنت کش لوگوں کو سمجھائے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے معاشی اور سیاسی طاقت پر قبضہ کرنا ضروری ہے‘۔
لیٹ کیپیٹلزم
1960ء کی دہائی کے دوران مینڈل نے یہ سوچ پیدا کی کہ مارکس کی کتاب ’سرمایہ‘ شائع ہونے کے ایک صدی بعد سرمایہ داری نے کس طرح کام کیا۔ مینڈل نے ابتدائی طور پر ’لیٹ کیپیٹلزم‘ سے پہلے ’نیو کیپلٹلزم‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ ’لیٹ کیپٹلزم ‘ کے عنوان سے 1972ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب مینڈل کی اہم ترین تصنیف تھی۔
’لیٹ کیپٹلزم‘میں انہوں نے جنگ کے بعد تیز رفتار ترقی کی طویل لہر کے اسباب کی مارکسی وضاحت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مینڈل کے مطابق، ترقی کی اس مدت میں ’موروثی حدود‘بھی تھیں جو اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ یہ ’عالمی سرمایہ داری کے لیے بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی بحران کی ایک اور طویل لہر ہے جہاں مجموعی ترقی کی شرح بہت کم ہے‘۔
انہوں نے 1970ء کی دہائی کے وسط میں جنگ کے بعد اس کے خاتمے کی درست پیشین گوئی کی تھی۔ مینڈل نے جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات کی تیز رفتار شرحوں کو سرمایہ داری کی آخری خصوصیات میں سے ایک قرار دیا۔ اس نے مقررہ سرمائے کی عمر کم کردی اور اس کے نتیجے میں بڑی فرموں کو منصوبہ بندی میں مشغول ہونے کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ 1929ء کے وال سٹریٹ کریش جیسی خرابیوں سے بچنے کے لیے معیشت میں بڑے پیمانے پر حکومتی مداخلت بھی شروع کی گئی۔ جیسا کہ مینڈل نے 1964ء میں مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’ریاست اب براہ راست اور بالواسطہ طور پر نجی منافع کی ضمانت دیتی ہے (سرمایہ داروں کے لئے) مخفی سبسڈی سے لے کر نقصانات کو قومیانے تک، اس ریاستی مداخلت کی کئی شکلیں ہیں۔‘
تاہم سرمایہ داری کو اپنے تضادات پر قابو پانے کی ہر کوشش نے اسے نئے مسائل سے دوچار کیا۔ حکومتوں کی حمایت سے بینکوں نے کارپوریشنوں کو سستے قرضے فراہم کیے، جس سے تیز رفتار ترقی ممکن ہوئی مگر افراط زر کی شرح بھی بڑھ گئی۔ اس طرح کی افراط زر نے بڑی طویل مدتی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا جو بڑی سرمائے کی حامل فرموں کے درمیان مسابقت کی ایک اہم وجہ تھی۔
اسی طرح، افراط زر سے لڑنے کی کوششوں نے نئے مسائل پیدا کیے اور معاشی ترقی کا گلا گھونٹ دیا۔ معیشت میں ریاستی مداخلت تباہ کن بحرانوں سے بچنے اور منافع کی ضمانت دینے میں مفید ہو سکتی ہے۔ لیکن اس نے سب پر یہ بھی واضح کر دیا کہ ’معیشت‘ قدرتی چیز نہیں ہے۔
انقلابی تناظر
مینڈل نے اس طرح کے تضادات کے نتیجے میں انقلابی تبدیلی کے امکان پر زور دیا۔ بلجیم کی عام ہڑتال اور 1965ء میں یونان میں پیدا ہونے والے اپوسٹاسیا بحران ایسے دھماکہ خیز واقعات تھے، جنہوں نے مینڈل کو ایک مارکسی مخمصے میں مبتلا کر دیا۔ اگر یہ سچ تھا، جیسا کہ مارکس نے بھی اصرار کیا تھا، کہ ”ہر معاشرے کا غالب نظریہ غالب طبقے کا نظریہ ہے،“ تو محنت کش طبقہ اپنے آپ کو ان نظریات سے کیسے آزاد کر سکتا ہے؟
مینڈل نے تسلیم کیا کہ حکمران طبقے کے نظریے کے غلبے کی جڑیں ذرائع ابلاغ، سکول سسٹم وغیرہ کے ذریعے ’نظریاتی ہیرا پھیری‘ سے زیادہ گہری ہیں۔ اس غلبے نے سرمایہ داری کے روزمرہ کے کاموں سے تقویت حاصل کی جس میں محنت کش لوگ ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے پر مجبور تھے اور انہیں اپنی محنت کی طاقت کی فروخت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔
اس کے باوجود سرمایہ داری کے ناگزیر تضادات اور بحران جو غالب اجارہ داریوں کے درمیان مسابقت کے نتیجے میں پیدا ہوئے، اس نے بھی حکمرانوں کے اتفاق رائے میں دراڑیں ڈال دیں۔ سوشلسٹوں کے لیے مرکزی سوال یہ تھا کہ عدم اطمینان کے اس اظہارسے کیسے آگے بڑھیں جو معاشی بدحالی کا ناگزیر نتیجہ تھے۔ حالات زندگی اور اجرتوں پر حملوں کے خلاف دفاعی جدوجہد سے مزدوروں کی طاقت کے مطالبات کی طرف بڑھنے کے لیے ’شعوری چھلانگ‘ کی ضرورت ہے۔
سوشلسٹ تنظیم کی ضرورت کے بارے میں لکھتے ہوئے مینڈل نے اپنے خیالات ترتیب دیئے تا کہ اس سوال کا جواب دیا جا سکے کہ اس طرح کی چھلانگ کس طرح ممکن ہے۔ مینڈل نے تین گروہوں میں فرق کیا: محنت کش طبقہ؛ محنت کش کارکنوں پر مشتمل اس طبقے کا ہراول دستہ؛ اور انقلابی تنظیموں کے ارکان۔ دوسرا اور تیسرا گروہ ایک دوسرے سے اوورلیپ (Overlap) کرتے ہیں۔
مینڈیل کے فریم ورک میں، ’ہراول دستہ‘ کوئی خود ساختہ اشرافیہ نہیں تھا بلکہ محنت کش طبقے کے سب سے زیادہ پرعزم اور پرجوش کارکن تھے۔ ایک انقلابی تحریک کی تعمیر کا مطلب ایسے کارکنوں کو سوشلسٹ نظریات کا حامی بنانا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسے کارکن منظم ہو جائیں گے اور جب سماجی جدوجہد میں اگر کبھی ٹہراو بھی آ جائے گا تو یہ کارکن جدوجہد سے منہ نہیں موڑ لیں گے۔
انقلابی تبدیلی صرف ایسے حالات میں ہی ممکن ہے جب لوگوں میں بے چینی پھیلی ہو اور سرمایہ دارانہ تضادات کی وجہ سے عوامی غصہ پایا جاتا ہو۔ ایسے ادوار کے دوران، ایک انقلابی پارٹی کو لوگوں کے بڑے گروہوں کو سیاسی عمل میں لانے اور سرمایہ دارانہ مخالف مطالبات پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مینڈل نے انقلاب کو منظم عمل اور بے ساختہ تحریکوں کے درمیان تعامل کے عمل کے طور پر دیکھا جس میں محنت کش لوگ لامحالہ خود کو مختلف گروہوں میں منظم کریں گے۔ مینڈل نے تنظیم اور خود ساختہ جدوجہد کے درمیان ایک دقیانوسی تقسیم کو ختم کیا جو بالترتیب مارکسسٹ بائیں بازو پر ولادیمیر لینن اور روزا لکسمبرگ جیسی شخصیات سے منسلک تھا۔ مینڈل نے نیم مذاق میں اپنے بارے کہا کہ وہ ایک ایسے لینن وادی ہیں جنہوں نے لکسمبرگ کی طرز پر لینن سے انحراف کیا ہے۔
1960ء اور 70ء کی دہائی کے ہنگامہ خیز دور تھاجس کے دوران مینڈل غیر معمولی طور پر بہت موثر ثابت ہوئے، گویا وہ طبقاتی جدوجہد کی بڑھتی ہوئی لہر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
لیٹ کیپیٹلزم کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ان سالوں میں جو دوسری کتابیں شائع کیں ان میں امریکہ اور یورپی سرمایہ داری کے تضادات کا مطالعہ، کارل مارکس کی اقتصادی فکر کی تشکیل پر ایک علمی متن، مغربی یورپی کمیونسٹ پارٹیوں کے درمیان یورو کمیونسٹ رجحان کا تنقیدی جائزہ اور دائروں میں سرمایہ داری کی ترقی کا جائزہ اور سرمایہ داری کی ترقی کی مختلف لہروں کا جائزہ شامل تھا۔ اپنی زندگی کے دوران مینڈل نے دو درجن سے زیادہ کتابیں اور سینکڑوں مضامین شائع کئے۔
مینڈل اور چے گویرا
مینڈل ایک پرجوش اور شانداز مقرر بھی تھے۔ 1964ء میں انہیں سوشلسٹ منصوبہ بندی پر بحث میں حصہ لینے کے لیے کیوبا مدعو کیا گیا۔ چے گویرا نے مینڈل کی ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘ کو بڑی دلچسپی سے پڑھا تھا اور ان کے ساتھ طویل بات چیت کی تھی۔
مینڈل اپنی طرف سے ارجنٹائن کے انقلابی رہنما سے بہت متاثر تھے۔ جب بولیویا کی فوج نے 1967ء میں چے گویرا کو گوریلا جنگ کی مہم شروع کرنے کی کوشش کرنے میں گرفتار کیا اور ہلاک کیا، تو مینڈل نے ’ایک عظیم دوست، ایک مثالی کامریڈ، ایک بہادر جنگجو‘ سے متعلق ایک پر جوش خراج تحسین شائع کیا۔
سرمایہ دارانہ ریاستوں کی حکومتوں نے مینڈیل کو ان کے نظریات کی وجہ سے انہیں اپنی سرزمین پر ان کا داخلہ بند کر دیا۔ 1969ء میں امریکی حکام نے انہیں امریکہ آنے سے روک دیا۔ بعد ازاں، سپریم کورٹ کی قدامت پسند اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ’مسلم پابندی‘ کو جواز فراہم کرنے کے لئے مینڈل والے کیس کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔ امریکی پابندی کے چند سال بعد، مغربی جرمنی کی حکومت نے مینڈل کی فرائیے یونیورسٹی برلن میں تقرری کو روک دیا اور جلاوطن کر دیا گیا۔
فرانس ایک اور ملک تھا جس نے مینڈل پر پابندی لگا دی تھی۔ مئی 1968ء میں، انہیں انقلابی کمیونسٹ یوتھ (جے سی آر) کے اجلاسوں میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا، یہ انقلابی گروپ تھا جو بعد میں فورتھ انٹرنیشنل میں شامل ہوا۔ جے سی آر مئی 68ء کے ہنگاموں اور احتجاج میں بہت زیادہ متحرک تھا۔
مینڈل نے پیرس کے لاطینی کوارٹر میں ’بیریکیڈز کی رات‘ کے دوران رکاوٹیں بنانے میں مدد کی۔ ان کیلئے کچھ عملی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کا یہی اطمینان بخش موقع رہا ہو گا۔ جس گاڑی میں وہ پیرس آئے تھے وہ سڑک پر ہونے والی لڑائی کے دوران تباہ ہو گئی۔ ایک رپورٹر نے مینڈیل کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’یہ سب کتنا خوبصورت ہے! یہ انقلاب ہے!‘
انقلابیوں کی نئی نسل کے لیے منڈیل انقلابی تاریخ اور تجربے کی ایک کڑی تھے۔ جے سی آر کے ایک رہنما دانیال بن سعید نے ایک دفعہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مینڈل نے ’ایک کھلا، کاسموپولیٹن اور جفاکش مارکسزم‘ دریافت کرنے میں ان کی مدد کی۔ ان کے مطابق نوجوان انقلابیوں کے لیے، مینڈل ’نظتیاتی معلم‘ اور نسلوں کے درمیان ایک پْل تھا، وہ شخص جس نے لوگوں کو اپنے لئے سوچنے کی بجائے دوسروں کیلئے سوچنے پر مجبور کیا۔
ایک نظریاتی استاد کے طور پر مینڈل کے پاس زبردست مہارت تھی جس کا استعمال،انہوں نے سیاسی کارکنوں، ٹریڈ یونینسٹوں، طلبا اور انقلابی کارکنوں کے ساتھ ان گنت ملاقاتوں میں کیا۔ ان کا 1967ء میں لکھا گیا پمفلٹ، ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری کا تعارف‘ ایک وسیع پیمانے پر پڑھا جانے والا مضمون بن گیا۔
اس حقیقت میں کچھ افسوسناک ہے کہ منڈل جنہوں نے سوشلسٹ تبدیلی کے لیے بہت جدوجہد کی تھی، 1995ء میں اس وقت انتقال کر گئے جب نیو لبرل بالادستی اپنے عروج پر تھی۔ جب 70ء کی دہائی کے اواخر میں سماجی جدوجہد کازوال ہونے لگا تومینڈل ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق خود کو نہ ڈھال سکے۔
مینڈل نے 1974ء میں مارکسزم بارے ایک متن شائع کیا تھا۔ اس کا پیش لفظ لکھتے ہوئے، بن سعید نے دلیل دی کہ سوشلزم کے امکانات کے بارے میں مینڈل کا امید سے بھر پور سیاسی تجزیہ مینڈل کے محنت کش طبقے بارے عمرانی اعتماد کا اظہار تھااور مینڈل کا خیال تھا کہ اس طبقے کے حجم میں اضافہ ہو گا اور اس میں بالغ نظری بڑھے گی۔ بن سعید کے مطابق، اس اعتماد نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سامنے آنے والی صنعتی سرمایہ داری اور طریقہ پیداوار کو مینڈل کی نظر میں ایک ایسا تاریخی عمل بنا دیا جس کی پسپائی ممکن نہ تھی۔ پھر 1980ء کی دہائی کی نیو لبرل جارحیت نے اس عمل کو الٹ دیا اور منظم محنت کش قوتوں کو کمزور کر دیا:
’یہ عمل ناقابل واپسی ثابت نہ ہوا۔ ہوموجینائزیشن کی جگہ ورک یونٹ کی جگہ جگہ تقسیم کی شکل اختیار کر گیا۔ عالمی لیبر مارکیٹ میں مقابلہ بڑھ گیا۔ تنخواہ اور لیبر ٹائم کا فیصلہ فرد کی سطح پر ہونے لگا۔ لائف سٹائل اور اوقات تفریح کی نج کاری ہو گئی۔ سماجی یکجہتی اورمحنت کشوں کو حاصل سماجی تحفظات کا منظم خاتمہ کیا گیا۔ بہ الفاظ دیگر، سرمایہ داری کے خلاف مزاحمت اور اس نظام کا خاتمہ از خود اس عمل کے نتیجے میں نہ گا جسے سرمایہ داری نے شروع کیا ہے بلکہ اس کے خلاف روزمرہ کی بنیادوں پر جدوجہد کرنا ہوگی اور نتائج کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔‘
مینڈل نے عمر کے آخری حصے میں امید پرستی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ تباہیوں بارے تنبیہہ کرنا بھی شروع کر دیا۔ مینڈل کا کہنا تھاکہ تاریخ نے دو راستے پیش کئے: بربریت یا سوشلزم…مگر سوشلسٹ کامیابی کی ضمانت نہیں دی گئی تھی۔
اس عرصے کے دوران، مینڈل نے پھر سے سرمایہ دارانہ بربریت کامطالعہ کیا جیسا کہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم اور نازی ازم کے جرائم کے دوران کیا تھا۔
وہ ٹراٹسکی کے تاحیات مداح رہے، لیکن انہوں نے ٹراٹسکی بارے اپنے پہلے جائزوں کا از سر نو جائزہ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ 1920ء کی دہائی کے اوائل میں ٹراٹسکی کا ایک ’دور سیاہ‘ بھی تھاجب ’بالشویک قیادت کی حکمت عملی کارکنوں کی از خود سرگرمی کو فروغ دینے کے بجائے رکاوٹ بنی‘۔
مینڈل روشن فکری کی تحریک میں اس روایت کا امین ہونے پر فخر محسوس کرتے جس کا مقصد انسانی آزادی اور انسان کا حق خود ارادیت تھا۔ اگرچہ انہیں یہ اصطلاح پسند نہیں تھی،جسے مینوئل کیلنر کے الفاظ میں، مینڈل کی سوچ کی ایک یوٹوپیائی جہت تھی۔ مینڈل کو یہ یقین تھاکہ معاشرے کو انسانی جدوجہد سے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور یوں وہ انتیا درکے کے یوٹوپین تھے۔
مینڈل کی نظر میں سوشلزم اور کمیونزم کا بحران سب سے پہلے اس عقیدے کا بحران تھا۔ اپنی موت سے کچھ دیر پہلے مینڈل نے لکھا تھا کہ ”سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا بنیادی کام لاکھوں لوگوں کے شعور میں سوشلزم کی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔‘ مینڈل نے سوشلزم کے اہداف کو ’انجیل کی زبان‘ میں بیان کیا:
’بھوک مٹائیں، بے لباس کو لباس پہنائیں، سب کو باوقار زندگی دیں، مناسب طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مرنے والوں کی زندگیاں بچائیں، ناخواندگی کے خاتمے سمیت ثقافت تک مفت رسائی کو عام کریں، جمہوری آزادیوں، انسانی حقوق کو عالمگیر بنائیں اور ہر قسم کے جابرانہ تشدد کو ختم کریں۔‘
مینڈل کے لیے ایسے مستقبل کی امید بغاوت کی چنگاری پر مبنی تھی جس نے ہمیشہ لوگوں کو جابرانہ اور اجنبی حالات کے خلاف باغی بنایا تھا۔ سوشلسٹوں کا کام ایسی تمام بغاوتوں کی حمایت کرکے اور آگے بڑھنے کا متبادل راستہ پیش کرکے اس چنگاری کو بھڑکانا تھا۔ وہ کام تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ایک مختلف تاریخی دور میں، مینڈل کی تحریر اور سرگرمی کی وراثت ایک نئی راہ کی تلاش میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔