طارق علی
2009ء میں چوتھی انٹرنیشنل کے اہم رہنما اور معروف عالمی معیشت دان و مفکر ارنسٹ مینڈل کی سوانح عمری شائع ہوئی۔ اس کا عنوان تھا:’Ernest Mandel: A Rebel’s Dream Deffered‘۔ اس کتاب کا پیش لفظ طارق علی نے لکھا۔ یہ پیش لفظ ترجمے کی شکل میں قارئین ’جدوجہد‘ کے لئے پیش کیا جا رہا ہے جس کا ایک مقصد پاکستانی ترقی پسند کارکنوں اور مزدور تحریک کو اس عظیم مفکر کے کام سے متعارف کرانا ہے: مدیر
ارنسٹ مینڈل دوسری عالمی جنگ کے بعد سامنے آنے والے سب سے زیادہ تخلیقی اور آزادانہ سوچ رکھنے والے انقلابیوں میں سے ایک تھے۔ سیاسی تھیوری، تاریخ عالم اور مارکسی معیشت پر ان کی تحریریں دنیا کی 40 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اپنے ماہرانہ انداز میں انہوں نے کتابوں کی ایک سیریز تحریر کی: لیٹ کیپٹلزم (Late Capitalism, 1975)، دی سیکنڈ سلمپ(The Second Slump, 1978)، دی لانگ ویوز آف کیپٹلسٹ ڈویلپمنٹ(The Long waves of Capitalist Development) ]جو نظر ثانی اور پھر نظر ثانی کے بعد 1995ء میں شائع ہوئی[۔
ان کتابوں میں انہوں نے یہ تجزیہ پیش کیا کہ سرمایہ داری مغرب میں کس طرح کام کرتی ہے۔ 2008ء میں جب وال اسٹریٹ کریش کر گئی تو ارنسٹ مینڈل اس کے کریش کرنے پر حیران ہونے کی بجائے با آسانی مارکسی انداز میں اس کا تجزیہ کرتے۔
1950ء کی دہائی کے اواخر سے وہ چوتھی انٹرنیشنل اور بلجئیم میں ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے اہم رہنما اور نظریہ دان بن کر ابھرے۔ اسی دوران وہ دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ”مارکسٹ اکنامک تھیوری“ پر بھی کام کرتے رہے۔ وہ ایک شاندار مقرر تھے۔ کئی یورپی زبانیں بولتے تھے۔ 1960ء کی دہائی میں، بالخصوص 1968ء کے بعد، وہ ایک ہر دلعزیز شخصیت بن کر ابھرے۔ بائیں بازو کے وہ لوگ جو ان کی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے، وہ بھی ارنسٹ مینڈل کے اثر و رسوخ اور بلا کی ذہانت کا اعتراف کرتے تھے۔ مغربی جرمنی کی ایس ڈی ایس (سوشلسٹ جرمن سٹوڈنٹس یونین)، بالخصوص اس کے رہنما مرحوم رودی ڈچک (Rudi Dutschke) ارنسٹ مینڈل سے بہت متاثر تھے۔
ابھی تک ارنسٹ مینڈل کی کوئی سنجیدہ سوانح عمری یا دانشوارانہ تاریخ شائع نہیں ہوئی تھی۔ زبردست تحقیق پر مبنی جان ولیم سٹاٹجی (Jan Willem Stutje) کی یہ کتاب ایک اچھا آغاز ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف ارنسٹ مینڈل کے نظریات سمجھائے گئے ہیں بلکہ ارنسٹ مینڈل کی شخصیت کے ارتقا کو سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جو لوگ ارنسٹ مینڈل کو صرف ایک انقلابی کے طور پر جانتے تھے ان کے لئے ارنسٹ مینڈل کی نجی زندگی بارے تفصیلات جان کر انہیں حیرت ہو گی۔ سٹاٹجی نے نہ صرف اس چیز کا فائدہ اٹھایا کہ مینڈل آرکائیوز تک رسائی حاصل کرنے والے وہ پہلے محقق تھے بلکہ انہوں نے ایسے بے شمار لوگوں سے انٹرویوز بھی کئے جو ارنسٹ مینڈل کو بطور شخص، بطور مفکر اور بطور سیاسی کارکن جانتے تھے۔ سٹاٹجی نے ارنسٹ مینڈل کو ان کے عہد اور اس عہد کی سیاسی ہلچل، کے پس منظر میں پیش کیا ہے۔
اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ وہ بچپن سے لے کر جوانی تک، ایک سکالر اور انقلابی بن کر کیسے ابھرے۔ دوسری عالمی جنگ، 1968ء کے واقعات سے لے کر 1995ء میں ان کی وفات تک، ارنسٹ مینڈل کی زندگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ارنسٹ مینڈل بلجئیم میں پیدا ہوئے۔ پہلے بلجئیم کے شہر اینٹ ورپ میں روئیا آتھنیم، بعد ازاں برسلز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ارنسٹ مینڈل کے والد ہنری مینڈل پولینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ سوشلسٹ تھے۔ انہوں نے پہلی عالمی جنگ کی مخالفت کی، آسٹرین فوج میں زبردستی بھرتی سے بچنے کے لئے بلجئیم سے فرار ہو کر ہالینڈ چلے گئے۔ بعد ازاں، جب قیصر جرمنی کا تختہ الٹا گیا تو ویلہلم پیک کے ہمراہ، جو ایک کیمونسٹ تھے، جرمنی چلے گئے۔ برلن میں وہ سوویت پریس ایجنسی سے، جو نئی نئی منظم کی گئی تھی، بطور صحافی منسلک ہو گئے۔ جرمنی میں ہنری مینڈل کی دوستی کارل ریڈک سے ہوئی جنہیں لینن نے جرمن انقلاب کی تعمیر کے لئے روس سے بھیجا تھا۔ روزا لکسمبرگ اور کارل لیبکنیخت کے قتل کے بعد جو زبردست جبر شروع ہوا اس نے ہنری مینڈل کو سخت مایوس کیا۔ وہ چند سال ہی جرمن کیمونسٹ پارٹی کے رکن رہے۔ سیاست میں فعال کردار ادا کرنا چھوڑ دیا۔ وہ واپس بلجئیم چلے آئے۔ یہاں ان کے پہلے بچے ایذرا، یا ارنسٹ، کی پیدائش ہوئی۔
ارنسٹ مینڈل دس سال کے تھے جب ہٹلر کا اقتدار پر مکمل قبضہ ہوا۔ کئی سالوں بعد ہم اُن دِنوں کی باتیں کرتے تو وہ اس عہد کی باتیں ہمیں بتاتے: ”فسطائیت کے خلاف لڑنے کے حوالے سے اس وقت کے سوشل ڈیموکریٹس اور کیمونسٹوں کی نا اہلی بارے میرے والد کا مشاہدہ بہت تیکھا تھا“، ایک دفعہ ارنسٹ مینڈل نے مجھے بتایا۔ ”مجھے یاد ہے میرے والد کا کہنا تھا ’اس کا انجام بہت برا ہو گا۔ ہم لوگوں کا خاتمہ ہو جائے گا“۔
1939ء میں ارنسٹ مینڈل نے بلجئیم میں متحرک چھوٹے سے ٹراٹسکی اسٹ گروپ میں شمولیت اختیار کی اور ملک پر جرمن قبضے کے خلاف تحریک کا حصہ بن گئے۔ بلجئین سوشلسٹ پارٹی کے رہنما، جو اس وقت ملک کے ڈپٹی وزیر اعظم بھی تھے، سر عام نازیوں کا ساتھ دینے کی اپیل کر رہے تھے۔ انہیں ٹریڈ یونین کے ایک اہم حصے کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ارنسٹ مینڈل اس پر شدید نالاں ہوئے۔ اندریں حالات، سرکاری کیمونسٹ بھی ہٹلر سٹالن معاہدے کے بعد اسی تباہ کن رجحان کا حصہ بن گئے۔
ارنسٹ مینڈل پہلی بار قابض نازی فوجیوں کو پمفلٹ بانٹنے پر گرفتار ہوئے۔ وہ یہودی بھی تھے اور انقلابی بھی، اس لئے انڈر گراونڈ جانا پڑا۔ بہرحال وہ وردی پوش جرمن فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے۔ وہ مشاہدہ کرتے کہ نازی مخالف پراپیگنڈہ کس طرح ان وردی پوش سپاہیوں کو متاثر کرتا ہے۔ آخر کار جب وہ گرفتار ہو گئے تو انہیں قیدیوں کے ایک ٹرانزٹ کیمپ بھیج دیا گیا۔ اس ٹرانزٹ کیمپ سے لوگوں کو آشویتز (پولینڈ میں قائم کنسٹریشن کیمپ: مترجم) بھیج دیا جاتا۔ اس ٹرانزٹ کیمپ میں انہوں نے کیمپ کی چوکیداری پر تعینات جرمن عملے سے بات چیت شروع کر دی۔ جرمن عملے کے یہ اہل کار ماضی میں سرکاری ملازم رہ چکے تھے۔ کیمپ کے باقی قیدی، جن کا تعلق بلجئیم اور فرانس سے تھا، ان کو انسان ماننے پر تیار نہ تھے۔ ارنسٹ مینڈل ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ مینڈل ان کو سوشلزم کی خوبیاں گنواتے۔ رفتہ رفتہ انہیں پتہ چلا کہ ان لوگوں میں سے کئی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ رہ چکے تھے۔ سولہ سالہ اس لڑکے کی ذہنی پختگی سے متاثر جرمن عملے نے ارنسٹ مینڈل کو فرار ہونے میں مدد دی۔ سٹاٹجی کے بقول یہ واقعات ارنسٹ مینڈل کی، بطور انقلابی اور دانشور، شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ گو وہ جلد ہی دوبارہ گرفتار ہو گئے، ان تجربات کی وجہ سے وہ ایک سچے انٹرنیشنلسٹ بن گئے۔ انہیں اندازہ ہوا کہ پوری قوم یا لوگوں کو ان کے رہنماوں کے جرائم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
وہ ہولوکاسٹ بارے کم ہی بولتے۔ ایک بار میں نے انہیں ہولوکاسٹ بارے بات کرتے سنا تو ہولوکاسٹ کا ذکر کسی نیم طنزیہ واقعہ کے حوالے سے کیا۔ دو نائجیرین ٹراٹسکی اسٹ ایک اجلاس کے لئے بلجئیم آئے ہوئے تھے وہ دیر سے ائر پورٹ پہنچے۔ وہاں سے سیدھا ارنسٹ مینڈل کے گھر پہنچے کہ ان کے پاس صرف ان کے گھر کا ہی پتہ موجود تھا۔ جب وہ ارنسٹ مینڈل کے گھر پہنچے تو وہ خود اور ان کی اہلیہ کسی میٹنگ کے لئے گئے ہوئے تھے۔ مینڈل کی والدہ نے زور و شور سے ہونے والی دستک کے بعد دروازہ کھولا۔ دو افریقیوں کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر دروازہ بند کر دیا۔ نائجیریا سے آئے دونوں کامریڈز اس حرکت پر محظوظ بھی ہوئے اور انہوں نے برا بھی نہیں منایا مگر ارنسٹ مینڈل شدید غصے میں تھے۔ وہ اپنی والدہ پر چلائے اور یاد دلایا کہ اسی طرح کے رویوں کی وجہ سے ان کے اپنے کئی رشتہ دار مارے گئے تھے۔ ہم بہت سے کامریڈز نے ان سے کہا کہ یہ موازنہ نامناسب اور زیادتی پر مبنی ہے۔ وہ ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ ”یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔ نا قابل قبول“۔
مزید برآں، ابراہم لیون، ٹونی کلف اور بہت سے دیگر یہودی بالشویکوں کی طرح ارنسٹ مینڈل بھی صیہونیت اور اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے تصورکے شدید خلاف تھے۔ اسرائیلی سوشلسٹ آرگنائزیشن کے بانیوں: اکیوا اورر، موشے ماخوور اور ہائم ہینگبی کی طرح ارنسٹ مینڈل بھی یک ریاستی حل کے قائل تھے جہاں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ وہ اس موقف سے پیچھے ہٹنے پرتیار نہ تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ارنسٹ مینڈل کی بھر پور کوشش تھی کہ چوتھی انٹرنیشنل کو عالمی انقلاب کی ایک ایسی تنظیم کے طور پر تعمیر کیا جائے جو نہ تو سٹالنسٹ جرائم سے کوئی تعلق رکھتی ہے نہ ہی سوشل ڈیموکریٹس کی سمجھوتے بازیوں سے۔ ان کی نظر میں ایسی ہی تنظیم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی تھی۔ آج تو یہ بات کرنا آسان ہے کہ یہ ایک یوٹوپین خیال تھا لیکن اس وقت نہیں تھا۔ رالف ملی بینڈ، جو کئی طرح سے چوتھی انٹرنیشنل سے ہمدردی رکھتے تھے، کا کہنا تھا کہ چوتھی انٹرنیشنل کے راستے پر چل کر کوئی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی اور اس کی وجہ سے بعض بہترین کامریڈز وسیع تر تحریک سے کٹ جاتے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ارنسٹ مینڈل، جو یورپ کی اہم زبانوں پر عبور رکھتے تھے، کوبطور مقرر دنیا بھر سے دعوت نامے آ رہے تھے۔ ان کی تقریروں کی وجہ سے ان پر امریکہ، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور آسٹریلیا میں داخلے پر پابندی لگی۔ سنکی حکومتیں انہیں قومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتی تھیں۔ آج کے سیاسی ماحول میں بھی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی بات بھی اکثر سننے میں آتی ہے۔
ان پابندیوں کی وجہ سے وہ ایک مرتبہ پھر اپنے ٹائپ رائٹر پر لکھنے بیٹھ گئے۔ وہ حیران کن رفتار کے ساتھ کتابیں اور پمفلٹ لکھتے رہے مگر ان تحریروں کا معیار بھی قائم رہتا اور وہ حالات سے مطابقت بھی رکھتیں۔ ان کی کتاب ”انٹروڈکشن ٹو مارکسسٹ اکنامک تھیوری“ پانچ لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئی۔ تصنیف و تالیف کے اس کام میں ڈوبے رہنے کے باوجود وہ دنیا بھر میں چلنے والی ٹراٹسکی اسٹ تحریکوں سے کبھی بھی بے خبر نہ رہتے۔ ستر کی دہائی میں جب میں انہیں فون کرتا اور پوچھتا ”کیا حال ہے آپ کا؟“۔ حال احوال بتانے کی بجائے ارنسٹ مینڈل کا جواب کچھ یوں ہوتا ”بس ایک پمفلٹ مکمل کرنے ہی والا ہوں۔ اس پمفلٹ میں سری لنکا کے فرقہ پرستوں کو تامل قومی سوال پر جواب دے رہا ہوں“۔ یا ان کا جواب ہوتا: ”ٹھیک ہوں۔ سٹیٹ کیپٹلزم پر انٹرنیشنل سوشلسٹ گروپ کو میرا جواب پڑھا؟“ یا ”ارجنٹینا میں احمق فرقہ پرست پیرون ازم کے قدموں میں ڈھیر ہو گئے ہیں۔ بے وقوف لوگ۔ کیا ان کو سمجھ نہیں آتی؟“
ان فرقہ پرستوں کو کبھی سمجھ نہ آ سکی۔ مگر ارنسٹ مینڈل بھی ان ’بے وقوف‘ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش سے باز نہ آتے اور انہیں حقیقی انقلابی راستے پر چلنے کی تلقین جاری رکھتے۔ موت کے دن تک وہ نئے نئے منصوبوں بارے سوچتے رہے۔ اپنی موت سے کچھ دن قبل مجھے بتایا ”سمجھ نہیں آ رہی کس کتاب پر کام شروع کروں۔ یورپی مزدوروں کی تاریخ لکھوں یا سرمایہ داری اور جرائم کے مابین مستقل اور اٹوٹ تعلق پر کچھ لکھوں؟“۔ آخر کار وہ کسی ایک پر بھی نہ لکھ سکے۔
ان کا ماننا تھا: ’Optimism of the will, optimism of the intellect‘ (ارادے میں بھی رجائیت ہونی چاہئے، دانشوارانہ طور پر بھی رجائیت ہونی چاہئے)۔ 1989ء میں سوشلزم کو ہونے والی شکست کو وہ ایک بڑی شکست ماننے پر تیار نہ تھے۔ میری اس بات پر کافی تلملاتے کہ ”انقلاب سے غداری“ میں ٹراٹسکی نے سوویت روس بارے جو پیش گوئی کی تھی وہ اس حقیقت سے زیادہ قریب ہے جس کا انکار آپ کر رہے ہیں۔ 1936ء میں جلا وطنی کے دوران ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ سوویت انقلاب عارضی نوعیت کا ہے، یا تو دنیا کے دیگر حصوں میں آنے والے انقلابوں کی وجہ سے، اس انقلاب کو نچلی پرتیں مجبور کریں گی کہ سوویت انقلاب آگے بڑھے یا یہ زوال پذیری کا شکار ہو جائے گا اور سرمایہ داری بحال ہو جائے گی جس کے بعد سوشلسٹ نوکر شاہی کے افسر کروڑ پتی بن جائیں گے۔
بائیں بازو کی وہ دنیا جس پر 1917ء کا گہرا اثر تھا، اب اختتام پذیر ہو چکی۔ 1989ء میں سوویت روس کا انہدام ہوا، چین سرمایہ داری کے راستے پر چل نکلا جس نے عالمی منڈی کی ہیئت بدل دی اور اسی سال روایتی سوشل ڈیموکریسی کا بھی انجام ہو گیا۔ 2008ء میں واشنگٹن کانسینسس (Washington Consensus) کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔ واشنگٹن کانسینسس کو اس کے عروج کے دور میں جنہوں نے للکارا وہ مزدوروں کی روایتی پارٹیاں نہیں بلکہ سماجی تحریکیں تھیں جنہوں نے لاطینی امریکہ کے ممالک: وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور، ارجنٹینا، پیرا اور پیراگوئے میں جنم لیا۔ ان سماجی تحریکوں نے ایسی قیادتوں کو جنم دیا جنہوں نے انتخابی کامیابی حاصل کی اور اقتدار میں آنے کے بعد ایسے سماجی منصوبے شروع کئے جو نیو ورلڈ آرڈر کے منافی تھے۔ اگر ارنسٹ مینڈل زندہ ہوتے تو یقینا ان سماجی تحریکوں بارے بہت کچھ لکھتے مگر ان کے لئے بھی مشکل ہوتا کہ وہ گذشتہ عہد سے وابستہ لگے بندھے طریقہ کار کے مطابق لکھ پاتے کہ جب ”جنگ یا انقلاب“ میں سے کسی ایک کا انتخاب درپیش ہوتا تھا۔ جب برازیل میں ورکرز پارٹی (پی ٹی) بنی تو ارنسٹ مینڈل سے کہا گیا کہ اس کا منشور لکھ دیں۔ انہوں نے مجھے بتایا ”یہ آسان نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عبوری پروگرام کے اہم نقات کیا ہونے چاہئیں“۔ معلوم نہیں انہوں نے کوئی ڈرافٹ تیار کیا یا نہیں مگر یہ پہلی بار ان کے منہ سے سن رہا تھا کہ انہیں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ایک بات بہر حال ہے کہ انہوں نے اکثر ایسی باتیں لکھنے سے اجتناب برتا جس سے ”تحریک میں مایوسی“ جنم لے۔ اس بات پر تاسف کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ تنقیدی جائزے کی شدید ضرورت تھی اور ارنسٹ مینڈل کے تنقیدی جائزے سے تحریک کو اندہ رہنے میں مدد مل سکتی تھی۔ کوشش تو ضرور ہی کرنی چاہئے تھی۔
سٹاٹجی نے ارنسٹ مینڈل کی شان میں قصیدے نہیں لکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ارنسٹ مینڈل اکثر اہم موقعوں پر سمجھوتہ کرنے کے حوالے سے یا اپنے نظریات کا دفاع کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے سے کتراتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا اس وقت ہوتا جب ارنسٹ مینڈل ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے نہ ختم ہونے والے مباحث میں حصہ لیتے تھے۔ ایک بار انہوں نے مجھے بتایا ”میری خواہش ہے کہ میں (کیتھولک فرقے) جیزئیوٹ (Jesuits) کی تاریخ لکھوں۔ ان کی تاریخ بھی ہماری تحریک سے کافی ملتی جلتی ہے۔“ انہیں پتہ تھا۔ اس کے باوجود اپنے نظریات سے ایسی جڑت تھی کہ ان کا روز مرہ کا معمول سخت اور بے سود تھا۔ ”آپ کی نسل اتنی جانفشاں نہیں، جتنی ہماری تھی“، یہ بات انہوں نے 1980ء میں اس وقت کہی جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کی تنظیم کے برطانوی سیکشن کے ساتھ مزید وابستہ نہیں رہ سکتا۔ ”ہم سٹالنزم اور فاشزم کے دور سے بچ نکلے اور ان ادوار کے خاتمے کا انتظار کرنا بے سود نہ تھا۔ آپ کچھ فرقہ پرستوں کی وجہ سے مایوس ہو گئے ہیں“۔ بات یوں نہ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جو بھی ساتھ چھوڑ کر جائے گا، دائیں بازو کی جانب مائل ہو جائے گا (مجھے یہ کہنے میں خوشی ہے کہ ارنسٹ مینڈل بعض لوگوں، میرے سمیت، بارے درست ثابت نہیں ہو ئے)۔
اختلافات کے باوجود ہماری دوستی قائم رہی۔ ارنسٹ مینڈل نے’نیو لیفٹ ریویو‘کے ساتھ قریبی اشتراک جاری رکھا حالانکہ ”تم لوگ سنٹرسٹ ہو“ (یعنی کبھی انقلاب اور کبھی اصلاحات کی بات کرتے ہو) ”مگر میں خوش ہوں کہ ’نیو لیفٹ ریویو‘کا اعلیٰ درجے کا معیار برقرار ہے۔ یہ اہم بات ہے۔ ’نیو لیفٹ ریویو‘مجھے کاتسکی کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلے ’نیا دور‘ (Die Neue Zeit) کی یاد دلاتا ہے“۔ میں ہنسا۔ چند روز پہلے ہی دیوار ِبرلن گری تھی۔ میں نے ارنسٹ مینڈل سے کہا کہ میرے ’نیو لیفٹ ریویو‘کے رفقا میں سے چند ایک ہی اس موازنے پر برا منائیں گے۔ اتفاق سے جنہوں نے برا منایا بعد میں وہ ’نیو لیفٹ ریویو‘کو چھوڑ ہی گئے۔
ارنسٹ مینڈل ایک ٹراٹسکی اسٹ تھے۔ مگر ایک ایسے ٹراٹسکی اسٹ جو آزادانہ طور پر سوچ سکے۔ ان میں یہ صلاحیت بھی تھی کہ مخالف سوچ رکھنے والوں کے ساتھ بھی بات کر سکتے تھے۔ ان کے بعض بہت عمدہ مضامین ایسے قارئین کے لئے لکھے گئے ہیں جنہیں وہ قائل کرنا چاہتے ہیں۔ میں ارنسٹ مینڈل کو بہت زیادہ مس کرتا ہوں۔ ان کا مجھ پر گہرا اثر تھا اور یہ اثر کبھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہو گا۔
ییٹس نے کہا تھا:
انسان کی دانش کو انتخاب کرنا ہوتا ہے
یا زندگی کو کامل بنا لو، یا کام کو کامل طریقے سے کرو
ارنسٹ مینڈل نے ہمیشہ کام کو ترجیح دی۔
ترجمہ: فاروق سلہریا