مارکسی تعلیم

مارکسزم اور مذہب (دوسری قسط)

فاروق سلہریا

پچھلی قسط میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ مارکس نے مذہب کو کس طرح تھیورائز کیا۔ بلانکی اور ڈوہرنگ جیسے معروف لوگ مذہب پر پابندی کی بات کر رہے تھے لیکن مارکس کے خیال میں مذہب پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ مارکس چاہتا ہے کہ آنسوں کی اس وادی کا خاتمہ کر دیا جائے جس کا ھالہ مذہب ہے۔

اس سوچ کو مارکسی تنظیمیں کس طرح عملی جامہ پہنائیں؟ اس حوالے سے مارکس کی اہم ترین تحریر جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا گوتھا پروگرام (جسے 1875ء میں پیش کیا گیا) پر مارکس کی تنقید تھی۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (مارکس وادی ان دنوں خود کو سوشل ڈیموکریٹ کہلاتے تھے) مزدوروں کی سب سے کامیاب جماعت بن کر ابھر رہی تھی۔ اگلے تقریباً چالیس سال تک یہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ پہلی عالمی جنگ سے پہلے تک، روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (جو 1905ء میں بالشویک اور مینشویک دھڑوں میں بٹ گئی) کے رہنما بھی یورپ کی باقی جماعتوں کی طرح جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف رشک سے دیکھتے تھے۔

گوتھا پروگرام میں لبرل سیکولرزم کی طرز پر ہر شخص کو مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا وعدہ کیا گیا۔ مارکس کا خیال تھا یہ ایک بورژوا نظریہ ہے۔ مارکس کا کہنا تھا کہ ایک مزدور جماعت کے لئے یہ کہنا کافی نہیں کہ ہر فرد کو مذہب پر عمل درآمدکی اجازت ہو گی اور پولیس کو یہ اجازت نہ ہو گی کہ لوگوں کی نگرانی کرتی پھرے (جیسا کہ پاکستان میں اب بھی ہے)۔ مارکس کا کہنا تھا گوتھا پروگرام بورژوا طرز کی مذہبی ضمیر کی آزادی کی بات کرتاہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ضمیر کو مذہب کی ساحری سے نجات دلائی جائے۔ بہ الفاظ دیگر بورژوا طرز کا سیکولرزم درحقیقت سٹیس کو (Status Quo) کی بات کرتا ہے، اسے آنسوؤں کی وادی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے برعکس مارکس آنسووں کی وادی کا خاتمہ ہی نہیں چاہتا، وہ انسان کی آنکھ میں آنسو ہی نہیں دیکھنا چاہتا۔ 1891ء میں گوتھا پروگرام کی جگہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے گوتھا پروگرام کی جگہ ارفیرٹ پروگرام (Erfurt Programme) کی منظوری دی۔ اس پروگرام میں مذہب کو نجی معاملہ قرار دیا گیا۔ مارکس کی نسبت اینگلز نے مذہب کے موضوع پر زیادہ لکھا مگر اینگلز کا موقف مارکس کے فریم ورک سے متصادم نہ تھا (اینگلز کے ہاں ہلکا سا تضاد بھی موجود تھا، جس پر بحث کسی اور وقت کے لئے ملتوی کرنا بہتر ہے)۔

جرمن سوشل ڈیموکریسی کے دو اہم ترین رہنما آگست بیبل اور ولہیلم لیبکنیخت تھے۔ بیبل اور لیبکنیخت دونوں پکے ملحد تھے۔ بیبل کا تو کہنا تھا کہ سوشلزم اور مذہب آگ اور پانی کے طرح ہیں۔ اس کا خیال تھا انجیل نے جتنے لوگوں کو پاگل خانے میں بھیجا ہے کسی اور کتاب کی وجہ سے اتنے لوگ پاگل خانے نہ پہنچے ہوں گے۔ بیبل کے خیال میں مسیحت سے جو اچھی باتیں منسوب کی جاتی ہیں وہ مذہب کی ماہیت نہیں بلکہ انسانی تہذیب کی مشترکہ میراث ہیں۔ اس تنقید کے باوجود دونوں رہنماوں نے مذہب بارے ارفیرٹ پروگرام سے اتفاق کیا اور یہ پراگرام لگ بھگ آئندہ کے لئے ترقی پسندمزدور تحریک اور مارکس وادی تنظیموں کے لئے مشعل راہ بن گیا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کاایک اور اہم ترین رہنما، جس نے مذہب پر تحقیق کی اور تفصیلی تحریریں بھی شائع کیں،وہ تھا کارل کاتسکی۔ کاتسکی سے پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن، ٹراٹسکی اور روزا لکسمبرگ کا جنگ کی حمایت کے سوال پر شدید اختلاف ہو گیا۔ مارکس وادی تاریخ میں اب کاتسکی کو ایک منحرف شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کاتسکی مذہب کا شدید مخالف تھا۔ وہ کسی حد تک مذہب پر پابندی کا بھی حامی تھا لیکن بطور پارٹی رہنما کاتسکینے پارٹی پروگرام کی حمایت کی۔

کلاسیکل مارکسی نظریہ دانوں میں آسٹرو مارکسسٹ رہنما بھی انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ مذہب کی جانب کم معاندانہ تھا۔ مختصراً اس جانب اشارہ ضروری ہے کہ بعض آسٹرو مارکسسٹ کانٹ سے متاثر تھے اور انہوں نے مارکسزم میں کانٹیئن طریقہ کار کی آمیزش کی کوشش کی۔ ماکس آڈلر کا رویہ مذہب کی جانب یہ تھا کہ مارکسزم اور مذہب میں کوئی تضاد ہی نہیں۔ یاد رہے اینگلز، روزا لکسمبرگ اور اس عہد کے بعض دیگر یورپی مفکرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی دور کی مسیحت ایک طرح کا سوشلزم تھا۔ آسٹرو مارکسسٹ سکول میں، راقم کی نظر میں، سب سے متوازن رویہ اوٹو باور (Otto Bauer) کا تھا۔ اس کے خیال میں مذہب کے ذریعے حکمران طبقہ جبر کرتا ہے اور کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے باوجود، بالشویک پارٹی کے برعکس، وہ اس بات کا حامی نہیں تھا کہ مذہبی خیالات رکھنے والے افراد کی پارٹی رکنیت پر پابندی لگا دی جائے۔ باور کا کہنا تھا کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں شراب نوشی کے خلاف ہیں (اس دور میں یورپی مزدور طبقہ اس لت میں بری طرح پڑا ہوا تھا جس سے بے شمار سیاسی و سماجی مسائل جنم لیتے تھے) مگر اس کے باوجود کسی شرابی کی پارٹی رکنیت حاصل کرنے پر پابندی نہیں۔ باور کا کہنا تھا کہ مذہبی پیشوا ہر سیکولر مسئلے کو مذہب کا رنگ دیتے ہیں جبکہ سوشل ڈیموکریٹس کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ مذہبی بنا دئیے گئے ہر مسئلے کو سیکولرائز کریں۔

آسٹرو مارکسسٹ سکول کے برعکس روس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا رویہ بہت معاندانہ تھا۔

’مارکسزم اینڈ ریلی جن‘ (Marxism and Religion) کے مصنف ڈیوڈ میکلینن کا خیال ہے کہ روسی سوشل ڈیموکریسی کی شدید مذہب بیزاری کی وجہ یہ ہے کہ روس بہت زیادہ مذہبی ریاست تھا، جس قدر مذہب کی جڑیں گہری تھیں،اسی قدر معاندانہ رویہ روسی انقلابیوں کا تھا…اورپھر یہ بھی اہم ترین بات تھی کہ زار شاہی اپنا جواز مذہب کی مدد سے پیش کرتی تھی۔ زار ِروس در اصل ظلِ الٰہی تھا۔ روسی مارکسزم کا باوا آدم کہلانے والے جارجی پلیخانوف کو جرمن سوشلسٹ پارٹی کے پروگرام پر شدید اعتراض تھا۔ پلیخانوف کا خیال تھا کہ سائنسی سوشلزم مذہب کی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ معاشرے اورفطرت کا غلط تصور پیش کرتا ہے اور پرولتاریہ کی متنوع ارتقا کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

پلیخانوف کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کے دروازے ایسے شخص پر بند نہیں ہونا چاہئیں جو مذہبی سوچ رکھتا ہو مگر ہمیں اُس سوچ کا خاتمہ کرنا ہو گا اور اُسے اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے مزدوروں میں اپنے تعصبات پھیلائے۔

ڈیوڈ میکلینن کا دعو یٰ ہے کہ لینن مذہب اور پارٹی کے حوالے سے پلیخانوف سے شدید متاثر تھا (گو بعض دیگر سوالات پر، بعد ازاں،لینن اور ٹراٹسکی دونوں، پلیخانوف سے شدید اختلاف کرتے بھی نظر آئے۔ یہ دونوں پلیخانوف کے وہ شاگرد تھے جو استاد سے بہت آگے نکل گئے)۔

لینن کا مشہور مضمون ہے ’سوشلزم اور مذہب‘۔ اس مضمون میں لینن مذہب کو ’روحانی شراب‘ قرار دیتے ہوئے اگر فلسفیانہ بنیاد پر مارکس سے متفق ہے تو تنظیمی سطح پر مذہبی بنیادوں پر مزدوروں میں تقسیم نہیں چاہتا۔ اس کا کہنا تھا: ’اس دنیا کو جنت بنانے کے لئے اس حقیقی انقلابی جدوجہد میں مزدور اتحاد، اُس مزدور اتحاد سے زیادہ اہم ہے جو آسمانی جنت بارے ہو سکتا ہے‘۔ لینن چاہتا ہے کہ مزدور بعد از موت جنت تلاش کرنے کی بجائے مل کر اس دنیا کو بہتر بنائیں۔

لینن کا مطالبہ تھا: ’ریاست مذہب کو نجی معاملہ قرار دے‘۔ لینن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ریاست کسی ایک مذہب کی سر پرستی نہ کرے بلکہ تمام مذاہب قانون کے سامنے برابر ہونے چاہئیں۔ یاد رہے، ایک طرف اگر زار شاہی روس میں چھوٹی قومیتوں سے امتیاز برتا جاتا تھا تو دوسری طرف سرکاری مذہب، آرتھوڈاکس عیسائیت، کی ریاستی سرپرستی موجود تھی جبکہ دیگر مذاہب سے امتیاز برتا جاتا تھا۔ لینن کا جو رویہ قومی اسحصال کے حوالے سے تھا، کسی حد تک وہی رویہ امتیاز کا شکار مذاہب کی جانب تھا۔ جس طرح لینن قوموں کے حق خود ارادیت کا حامی تھا، اسی طرح وہ بالشویک رہنما کے طور پر مذہب پر عمل کے لئے فرد کی مکمل آزادی کا حامی تھا۔ انقلاب کے بعد اس لینن وادی سوچ نے کیا شکل اختیار کی، اس کا ذکر مضمون کے اگلے حصے میں ہو گا۔

لینن کے علاوہ ٹراٹسکی (گو ٹراٹسکی نے کوئی باقاعدہ تحریر نہیں چھوڑی)، روزا لکسمبرگ، فرینکفرٹ سکول (اگر آپ انہیں مارکس وادی تسلیم کرنے پر تیار ہیں) اور بیسویں صدی کی ابتدا کے ان گنت مارکس وادی دانشور اور کارکنوں نے مذہب اور مارکسزم کے حوالے سے لکھا۔

بر سبیل تذکرہ، ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے جو راقم نے سویڈن کے معروف مارکس وادی تاریخ دان ہوکن بلومکوست (Håkan Blomqvist) سے سنا تھا: کیمونسٹ مینی فیسٹو کا سویڈش زبان میں ترجمہ ایک پادری نے کیا تھا۔ ترجمہ کرتے ہوئے پادری نے مارکس کو تھوڑا سا ’مذہبی ٹچ‘ بھی دے دیا…لہٰذا دنیا بھر کے مزدورو ایک ہو جاؤ کا ترجہ کیا گیا ’دنیا بھر کے مسیحیو! ایک ہو جاؤ‘۔

مضمون کے اگلے حصے میں جائزہ لیا جائے گا کہ اقتدار میں آنے کے بعد مختلف ممالک میں کیمونسٹ کہلانے والی سیاسی جماعتوں کا مذہب کی جانب رویہ کیا تھا۔

(جاری ہے)

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔