فاروق سلہریا
شاہ رخ خان کی نئی فلم ’جوان‘ 10 نومبر تک 10 ارب روپے (پاکستانی کرنسی میں لگ بھگ بیس ارب روپے) کما چکی ہے۔ صرف نیٹ فلکس نے ڈھائی ارب روپے میں اس فلم کے رائٹس خریدے۔
کاروبار کی حد تک تو یہ فلم بھلے ہی کامیاب جا رہی ہو، تنقیدی اور جمالیاتی نقطہ نگاہ سے یہ فلم کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فلم معروف ہسپانوی نیٹ فلکس سیریز ’منی ہائسٹ‘ (La Casa de Papel)کا چربہ ہے۔ گو اسے دیسی ٹچ دیا گیا ہے۔ ایکشن کی حد تک تامل فلموں کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔بعض مناظر ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر پاکستانی یا ہندوستانی ناظرین انٹر ٹیننگ قرار دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک منظر میں شاہ رخ خان موٹر سائیکل کو بریک لگاتے ہیں، سڑک سے ٹائر کی رگڑ سے جو شعلے نکلتے ہیں، ان کی مدد سے اپنا سگار سلگاتے ہیں۔ یہ اسی طرح کا منظر ہے جو تامل ایکشن فلموں میں نظر آتا ہے یا اُس منظر کی یاد دلاتا ہے جس میں متھن چکر ورتی سائیکل کے ٹائر پیچھے ’چھپ‘ کر گولیاں چلا رہے ہیں۔
بہت سے دیگر مناظر اور سچویشنز سیدھا سیدھا ’منی ہائسٹ‘ سے کاپی کی گئی ہیں۔ چربہ فلمیں تخلیقیت اور اوریجنلنٹی (originality) کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ کسی فلمی صنعت کو ترقی کرنا ہے تو اسے تخلیقییت کو پروان چڑھانا چاہئے۔ فلم پر مزید تبصرے سے پہلے ضروری ہے کہ کہانی کا خلاصہ پیش کر دیا جائے۔
کرپشن کہانی
کہانی کا مرکزی کردار آزاد (شاہ رخ خان) اور وکرم راٹھور (شاہ رخ خان) ہیں۔ جی ہاں! شاہ رخ نے ڈبل رول ادا کیا ہے۔ایک زمانے میں ہندوستانی پاکستانی فلموں میں عام بات تھی۔ آزاد ایک جیل کا افسر ہے۔ جیل کے ایک سیل میں قید چھ نوجوان خواتین کے ساتھ مل کر وہ مختلف گوریلا ایکشن کرتا ہے جن کا مقصد معاشرے میں موجود نا انصافیوں کا خاتمہ ہے۔ گینگ میں شامل چھ خواتین بھی معاشرتی و ریاستی نا انصافیوں کا شکار ہوئی تھیں۔ ایک طرح سے وہ مل کر بدلہ بھی لے رہے ہیں اور معاشرے کو ٹھیک بھی کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر فلم کا آغاز ایک میٹرو ٹرین کو اغوا کرنے سے ہوتا ہے۔ ٹرین اغوا کر کے یہ گینگ ایک بدعنوان بزنس مین کالی (وجے سیتھو پاتھی) سے چالیس ہزار کروڑ نکلوا کر ان کسانوں میں بانٹ دیتا ہے جو بنک کا قرضہ ادا نہیں کر پاتے۔ یہ ایکشن گینگ میں شامل ایک لڑکی کا بدلہ بھی تھا جس کا باپ کسان تھا اور اس نے خود کشی کر لی تھی۔
ایک اور ایکشن میں یہ گینگ وزیر صحت کو اغوا کر لیتا ہے اور جواب میں مطالبہ کرتا ہے کہ چھ گھنٹوں میں ملک کے دو سو سے زائد ہسپتالوں میں جدید سہولیتیں فراہم کی جائیں۔ حکومت یہ مطالبہ مان لیتی ہے۔اس منظر سے فلم میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر ریاست چاہے تو جو کام دس سال میں نہیں ہوپاتا،چھ گھنٹے میں ہو سکتا ہے بشرطیکہ ریاست کرنے پر تیار ہو۔ باقی تفصیلات یہاں بیان نہیں کی جا رہیں تا کہ تجسس برقرا رہے۔ اب آتے ہیں فلم کے بیانئے کی طرف۔
روایتی بیانیہ
روایتی مین اسٹریم فلموں کی طرح اس فلم میں بھی انفرادی ہیرو ازم اور گوریلا ایکشن کو عوامی مسائل اور سٹرکچرل پرابلمزکا حل بتایا گیا ہے۔ آزاد اور اس کی ساتھی خواتین جیسے مظلوم افراد جو غیر معمولی بہادری،غیر معمولی ذہانت اور غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں تو مسائل کو معجزاتی طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ ان افراد کا بے لوث ہونا ضروری ہے۔یہ وہی بیانیہ ہے جو پاکستان میں ’تحریک انصاف‘اور ہندوستان میں ’عام آدمی پارٹی‘ نے مقبول بنایا۔
دوم، فلم دیکھنے والوں کو آخر میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مسائل کی اصل وجہ در اصل وہ خود ہیں کیونکہ وہ ووٹ دیتے وقت ذات برادری اور مذہب کو دیکھتے ہیں نہ کہ اچھے امیدوار کو جو ترقی دینا چاہتا ہے۔ گویا ہندوستان کی جمہوریت کے ساتھ مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ہے تو ووٹر۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ لبرل جمہوریت نہیں جہاں میجارٹیرین ازم (majoritarianism)کا راستہ روکنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ میجارٹیرین ازم کا حتمی راستہ تب ہی روکا جا سکتا ہے جب معاشی جمہوریت بھی موجود ہو۔
سوم، بدعنوانی کی ذمہ داری افراد پر ڈال دی گئی ہے۔ فلم کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے یہ ریڈیکل ٹچ دینے کی کوشش کی گئی کہ فلم میں کسانوں کی خود کشیاں دکھا کر در اصل بی جے پی پر تنقید کی گئی ہے۔ ایسا کچھ نہیں۔ کسانوں کی خود کشیوں (اور اس کی ذمہ دار نئیو لبرل معیشیت)پر ایک زبردست فلم عامر خان کی پروڈکشن ’پیپلی لائیو‘ تھی۔ ’مترو کی بجلی کا من ڈولا‘بھی رئیل اسٹیٹ، نئیو لبرل معیشیت اور کسانوں کی تباہی پر ایک اچھی فلم تھی (اس فلم کی مزید اچھی بات یہ تھی کہ ہلکی پھلکی کامیڈی کی شکل میں بنائی گئی تھی)۔’جوان‘ اس طرح کی کسی کوشش میں پڑے بغیر،عمران خان اور کیجری وال کی طرح سیدھا سیدھا پیغام دے رہی ہے کہ اگر کچھ لوگ کرپشن نہ کریں تو کرپشن ختم ہو جائے گی۔ یا یہ کہ اگر کچھ ہیرو سامنے آ جائیں تو وہ کرپٹ لوگوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ ہم عملی طور پر دیکھ چکے ہیں کہ یہ بیانیہ حقیقی زندگی میں کتنا بے معنی ہے۔ بد عنوانی کی وجوہات نظام کے اندر ہیں۔ بد عنوانی ختم کرنے کے لئے طاقت (پاور) کو ڈیموکیٹائز(democratize) کرنا ہو گا۔ کرپشن اس لئے نہیں ہوتی کہ کچھ لوگ پیدا ہی بد عنوان ہوئے تھے یا کچھ کے خمیر میں لکھا ہے کہ وہ بد عنوانی نہیں کریں گے۔ جب کچھ لوگوں کے ہاتھ میں طاقت کا ارتکاز ہو جائے گا تو وہ ہر جائز نا جائز کام کریں گے(جنرل ریٹائر شفاعت شاہ اس کی تازہ مثال ہیں)۔
آخر میں تھوڑی سی بات میڈیا کی بھی ہو جائے۔ آزاد کا گینگ جوں ہی میڈیا کی مدد لیتا ہے،’پورا دیش‘ان کے ساتھ مل جاتا ہے جبکہ میڈیا بھی ان کے کاز (cause)کو آگے بڑھانے میں ایک آلہ کار بن جاتا ہے۔
کاش ایسا ہوتا! کارپوریٹ بھارتی میڈیا مودی کی جیب میں ہے۔ امبانی برادرز نے میڈیا خرید کر مودی کے قدموں میں بٹھا دیا ہے۔ پھر یہ کہ میڈیا ایسے لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو مودی اور مودی کی نئیو لبرل معاشی پالیسیوں سے نظریاتی طور پر متفق ہیں۔میڈیا دیکھنے والوں کی شائد اکثریت بھی ایسی ہی ہے۔ اگر میڈیا پر ظلم دکھانے سے ظلم ختم ہو جاتا تو فلسطین سے لے کر بلوچستان اور کردستان سے لے کر کشمیر تک، سب ٹھیک ہو چکا ہوتا۔ ان فلموں میں اتنا معمولی سا تضاد نہیں بتایا جاتا کہ جو لوگ ریاست اور حکومت کو کنٹرول کر سکتے ہیں،وہ میڈیا کو کیسے کھلا چھوڑ سکتے ہیں؟
ایک بار پھرعرض ہے، کارپوریٹ میڈیا بارے حقیقی تصویر کشی کے لئے ’پیپلی لائیو‘ کی مثال دینا مناسب رہے گا۔ سچ تو یہ کہ ’جوان‘ مودی سرکار کے نئیو لبرل ہندوستان پر کسی تنقید کی بجائے نئیو لبرل ہندوستان کی ایک ’کامیاب‘ مثال ہے: ایک چربہ،غیر تخلیقی،بے کار فلم مارکیٹنگ کے زور پر کامیابی سے بزنس کررہی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔