نقطہ نظر

’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گہرے اثرات، الیکشن ماضی کی طرح بے معنی ہیں‘

حارث قدیر

نذر مینگل کہتے ہیں کہ ”بلوچستان میں ماضی کی طرح موجودہ الیکشن بھی انتہائی خوف و ہراس اور غیر یقینی صورتحال میں ہو رہے ہیں۔ ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو الیکشن نہیں چاہتیں، اور ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو انتہائی کنٹرولڈ الیکشن کے ذریعے من پسند لوگوں کو کامیاب کروانا چاہتی ہیں۔80فیصد غربت ہے، بجلی، گیس، تعلیم، علاج سمیت پینے کے صاف پانی کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود ان وسائل سے بلوچ عوام کی زندگیاں تبدیل نہیں سکیں۔ کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ الیکشن بلوچ عوام کیلئے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔“

نذر مینگل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سوشلسٹ رہنما اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کے مرکزی صدر ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک میں ایک مقبول کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بلوچستان کی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

گزشتہ روز’جدوجہد‘ نے عام انتخابات کے حوالے سے نذر مینگل کا ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

بلوچستان میں انتخابی مہم کا اگر ماضی کی مہموں سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو آپ کے خیال میں کیا بنیادی فرق ہے؟

نذر مینگل:بلوچستان میں ماضی میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، بالخصوص 2008سے2018کے الیکشن انتہائی خوف و ہرس اور غیر یقینی صورتحال میں ہی ہوئے ہیں۔ ابھی جو 8فروری کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں، اس وقت بھی بلوچستان میں خوف و ہراس اور ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ بلوچ علاقوں میں بڑے پیمانے پر انتخابی دفتروں کے آس پاس یا سڑکوں پر دھماکے ہو رہے ہیں۔ عوام میں اس وجہ سے کافی خوف و ہراس موجود ہے۔

یہاں دو ایسی قوتیں ہیں جو انتخابات پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایک طرف آزادی پسند ہیں، جو نہیں چاہتے کہ الیکشن کا انعقاد ہو۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے، جو بنیادی طور پر بلوچستان میں کنٹرولڈ قسم کا الیکشن کرواکر اپنے من پسند اور ٹائٹ نما لوگوں کو کامیاب کروانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں اور انہیں کامیاب کرواتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کے انتخابات اور موجودہ انتخابات میں کوئی بنیادی فرق نظر نہیں آرہا ہے۔

کون کون سے بڑی مین سٹریم جماعتوں اور قوم پرست جماعتوں نے مرکزی انتخابی جلسے کئے ہیں اور کتنے لوگوں کو یہ جماعتیں جلسوں میں لا سکی ہیں؟

نذر مینگل:بلوچستان میں بہت ساری پارٹیاں اس وقت الیکشن میں نظر آرہی ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان کی قومی پارٹیاں ہیں، جن میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام (ف) شامل ہیں۔ دوسری جانب قوم پرست جماعتیں ہیں، ان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو گروپ، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، بی این پی عوامی اور بلوچستان عوامی پارٹی موجود ہیں۔ ان تمام پارٹیوں نے مختلف شہروں میں اپنے جھنڈے اور بینر آویزاں کئے ہوئے ہیں۔ کارنر میٹنگز کی جا رہی ہیں اور شمولیتی پروگرام ہو رہے ہیں۔ تاہم کوئی بڑا جلسہ کرنے میں یہ پارٹیاں ابھی تک کامیاب نہیں ہوپائی ہیں۔ بی این پی مینگل نے نوشکی اور کوئٹہ میں جلسے کئے ہیں، لیکن عوامی شرکت اتنی زیادہ نظر نہیں آرہی تھی۔ پیپلزپارٹی نے بھی یکم فروری کو خضدار میں جلسہ کیا، جس میں پورے بلوچستان سے پارٹی رہنماؤں کی ذمہ داریاں لگا کر لوگوں کو لانے کی کوشش کی گئی، لیکن خاطر خواہ عوامی اجتماع وہاں بھی نظر نہیں آیا۔ خوف و ہراس بھی ایک وجہ ہے،جس کی وجہ سے لوگ جلسوں میں شرکت سے گریز کر رہے ہیں۔

ماضی میں بھی بلوچستان میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہی رہا ہے۔ اس بار توقعات کیا ہیں اور کیا ٹرن آؤٹ کی کمی سکیورٹی ایشوز کی وجہ سے ہے یا عام بلوچ عوام کا الیکشن پراسیس پر عدم اعتماد ہے؟

نذر مینگل:بلوچستان میں ماضی میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا ہے، اس بار بھی ٹرن آؤٹ کے کم رہنے کا ہی زیادہ امکان ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکیورٹی کے خدشات ہیں اور عوام میں سخت خوف و ہراس موجود ہے۔ دوسری جانب الیکشن سے عوام کا اعتماد بھی مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ جو لوگ منتخب ہوتے ہیں وہ انتخابی وعدوں پر پورا نہیں اترتے اور عوام سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے الیکشن اب عوام کیلئے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔


بہت سے حلقوں میں نوابزادوں اور سرداروں میں سے قریبی عزیزوں کو پارٹی ٹکٹ دئیے گئے ہیں۔ سرداروں کے درمیان مقابلے سے ہٹ کر اگر عام بلوچ عوام سے امیدواروں کی بات کی جائے تو کتنے ایک لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور کن جماعتوں نے عام بلوچوں کو ٹکٹ دئیے؟

نذر مینگل:بلوچستان میں جتنی بھی پارٹیاں ہیں ان میں سے اکثر کے سربراہ نواب اور سردار ہی ہیں۔ ان نوابوں کے اپنے حلقے ہیں، جہاں سے وہ آسانی سے جیت کر اسمبلیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ٹکٹ مڈل کلاس کے لوگوں کو دیئے جاتے ہیں اور وہ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔

اس طبقاتی نظام میں جہاں الیکشن پر کروڑوں روپے خرچہ کرنا پڑتا ہے، عام بلوچ کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکے۔ مخصوص نشستوں پر بھی اشرافیہ کے لوگ اپنے عزیز و اقارب کو ہی ٹکٹ دیتے ہیں۔ یوں عام بلوچ کو نہ تو پارٹی ٹکٹ دیا جاتا ہے، نہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اسمبلی میں پہنچ سکتا ہے۔

کتنی خواتین صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، سردار اور نواب گھرانوں کے علاوہ عام بلوچ خاتون بھی کوئی میدان میں ہے یا نہیں؟

نذر مینگل:جنرل نشستوں پر کسی خاتون امیدوار کو تو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔یا شاید ایک آدھ ہو لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ البتہ خواتین کیلئے مخصوص نشستیں ہیں۔ ان نشستوں پر بھی پارٹیوں کے سربراہوں، سرداروں اور نوابوں کے گھرانوں کی خواتین کو ہی ٹکٹ دیئے جاتے ہیں۔ عام بلوچ خاتون نہ تو براہ راست الیکشن کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی مخصوص نشستوں پر عام بلوچ خاتون کو نمائندگی کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔

خواتین کے ووٹ ڈالنے کا رجحان بلوچستان میں کیا رہا ہے اور ان کے اہم ایشوز کیا ہیں؟

نذر مینگل:خواتین کے ووٹ ڈالنے کا رجحان بلوچستان میں ہمیشہ ہی کم رہا ہے۔ پارٹیوں کے مابین مقابلے کی صورت میں ہر امیدوار کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو گھروں سے نکال کر اپنے حق میں ووٹ پول کروائے جائیں۔ اس طرح جو خواتین ووٹ ڈالتی ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے اس الیکشن عمل کا حصہ نہیں بنتی ہیں۔ عملی طور پر بلوچ خواتین بھی اس الیکشن اور اس نظام سے اکتا چکی گئی ہیں اور الیکشن کو ایک بے معنی سرگرمی ہی سمجھتی ہیں۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے ایک تحریک بھی چل رہی ہے۔ ایسے میں لوگوں کی انتخابات میں دلچسپی کس حد تک ہے اور تحریک کی حمایت کن علاقوں میں زیادہ ہے؟

نذر مینگل: بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی سنگین، پیچیدہ اور حساس ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ تقریباً18سال سے زائد عرصہ سے چل رہا ہے۔ ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مختلف تحریکیں چلی ہیں۔ اس سے قبل ماما قدیر کی قیادت میں ایک لانگ مارچ کراچی سے اسلام آباد تک منعقد ہوا۔ ماما قدیر ہی کی قیادت میں کراچی اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی کیمپ بھی چل رہے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر کے آخری ہفتہ میں بالاچ بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف تربت میں احتجاجی دھرنے سے یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ اس میں مکران کے تمام شہروں سے عوام، نوجوان اور خواتین بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں یہ دھرنا لانگ مارچ کی صورت میں پہلے تربت سے کوئٹہ اور پھر ڈی جی خان اور ڈی آئی خان سے ہوتا ہوا اسلام آباد تک گیا۔ اسلام آباد میں دو ماہ تک احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔ اس تحریک میں بلوچستان کے تمام ہی چھوٹے بڑے شہروں، دیہاتوں میں بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے۔ پنجاب اور دیگر جگہوں پر مارچ کے شرکاء کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ دھرنا ختم کر کے واپسی پر بھی ژوب میں پی ٹی ایم کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں پشتونوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین کا استقبال کیا۔ کوئٹہ میں بھی بلوچ اور پشتون مرد و خواتین نے بڑی تعداد میں استقبال کیا اور ریلی کی شکل میں اس قافلہ کو بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے لایا گیا، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا استقبال کیا۔

حمایت کا ایک اور اندازہ 27جنوری کو سریاب چوک سٹیڈیم میں ہونے والے احتجاجی جلسہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین، نوجوان، طالبعلم اور بڑی عمر کے لوگ موجود تھے۔ شاید ہی بلوچستان کی تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ اس سے قبل کوئی ہوا ہو۔

اس تحریک نے بنیادی طور پر بلوچستان میں طبقاتی کردار کو بھی واضح کر دیا ہے۔ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں تھیں، انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ اور احتجاج کی حمایت سے گریز کیا اور دھرنے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ سرداروں، نوابوں اور اشرافیہ نے بھی اس تحریک سے فاصلہ قائم کیا، جس کی وجہ سے یہ واضح ہو گیا کہ بلوچ عوام کو یہ تحریک اپنے طبقاتی اتحاد کی بنیاد پر ہی منظم کرنا ہوگی، حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بلوچ عوام کی نجات کے ضامن نہیں ہو سکتے۔

اس تحریک نے انتخابات پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اکثریتی آبادی الیکشن سے بدظن ہے۔ موجودہ تحریک کے اثرات کا واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ جس دن بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین بلوچستان پہنچے تو ریلی کی شکل میں ان کے استقبالی جلوس میں شریک نوجوانوں نے راستے میں انتخابی دفتروں میں لگے جھنٹے اور بینر اتار کر جلا دیئے۔

اس تحریک نے سیاسی پارٹیوں کو بھی بہت دباؤ کا شکار کیا ہے۔ دوسری طرف سرداروں اور نوابوں سے بھی لوگوں کی نفرت اور حقارت میں اضافہ ہوا ہے۔

مجموعی ملکی معاشی صورتحال کے علاوہ بلوچستان میں اس وقت کیا ایسے بنیادی ایشوز ہیں جن کو ایڈریس کرنا ضروری ہے اور کیا ان مسائل کے حوالے سے کسی پارٹی نے کوئی منشور بھی دیا ہے؟

نذر مینگل: بلوچستان میں کوئی کارخانے اور فیکٹریاں نہیں ہیں۔ روزگار کے دیگر ذرائع بھی کوئی موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطہ میں 80فیصد غربت موجود ہے۔ ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے تیل اور دوسری چیزیں سمگل کر کے اس خطے کے لوگ کسی حد تک اپنا گزارہ کرتے ہیں۔

بنیادی علاج کی سہولیات کا بھی فقدان ہے، تعلیم ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ عام غریب لوگ اس طبقاتی نظام میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ تعلیمی ادارے بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ نہ لیبارٹریز ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر میسر ہیں۔ معمولی مرض کے علاوج کیلئے بھی لوگوں کو کراچی جانا پڑتا ہے۔ بلوچستان گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے، لیکن گیس یہاں لوگوں کو میسر نہیں ہے، جنگلات برباد ہو گئے ہیں۔ بجلی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔دیہاتوں میں صرف 24گھنٹوں میں 3گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے، شہروں میں بھی 10سے12گھنٹے تک بجلی مہیا کی جاتی ہے۔ زیر زمین پانی ختم ہو رہا ہے،ڈیم موجود نہیں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے دنوں میں پانی کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔

حکمران طبقے کا منشور سی پیک کے منصوبوں کے دعوؤں کی حد تک ہی ہے، لیکن ابھی تک ان منصوبوں سے بھی بلوچ عوام کو کوئی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا ہے۔ بلوچستان کی معدنیات،سیندک، ریکوڈک اور گوادر پورٹ وغیرہ سے بھی بلوچستان کے عوام کو روزگار سمیت کسی بھی حوالے سے کوئی فائدہ نہیں مل سکا ہے۔ مجموعی طور پر بلوچستان کے مسائل انتہائی گھمبیر اور زیادہ پر پیچ ہی ہوتے جا رہے ہیں۔

انتخابات کا عمل بھی مسلسل ہورہا ہے، بلوچ خطے سے لوگ اقتدار کا حصہ بھی بنتے ہیں، لیکن بلوچستان کی محرومیاں ختم نہیں ہو پائی ہیں، مزاحمت مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر انتخابات کے ذریعے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تو آپ کی نظر میں بلوچ عوام کے مسائل کے حل کا راستہ کیا ہے؟

نذر مینگل: بلوچستان میں گزشتہ75سالوں سے جو سیاست چلی آرہی ہے اور قوم پرست پارٹیاں، جن کا محور بلوچستان ہی ہے، وہ بے شمار ہیں۔ یہ سب بلوچستان کے مسائل، وسائل اور حق خودارادیت کی بات کرتے ہیں، اس خطے کے حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن عملاً جب وہ اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں توعوام کے بنیادی مسائل کو بھول کر اپنے مفادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس میں ایک تو اس نظام کا مسئلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تاخیر زدگی کی وجہ سے بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نہیں ہو سکی۔ جتنی بھی مقامی پارٹیاں ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی پارٹی نہیں ہے، جو اکثریت سے جیت کر اسمبلی میں پہنچ پائے۔ ہر پارٹی دو دو چار چار سیٹیں ہی جیت پاتی ہے، جس کی وجہ سے ایک مخلوط حکومت بنتی ہے۔ یہ مخلوط حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشاء سے ہی بنتی ہے۔ وہ جسے وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہیں وہ اقلیت میں ہوتا ہے اور 5سال اقتدار بچانے کیلئے وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج بنانے میں ہی گزر جاتے ہیں۔ اس طرح پھر جو کچھ ترقیاتی فنڈز ہوتے بھی ہیں وہ سارے بھی حکومت بچانے کیلئے ممبران اسمبلی کی عیاشیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان فنڈز سے نیچے عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو پاتا۔

موجودہ وقت تو یہ نظام ہی عالمی سطح پر ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال بھی انتہائی گھمبیر ہے۔ ایسے میں بلوچستان میں جو قومی محرومی، جبر اور استحصال ہے، اسکا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک اس ملک میں ایک مزدور انقلاب برپا نہیں ہو جاتا اور محنت کش طبقہ اقتدار نہیں سنبھال لیتا۔

اس وقت یہ بہت ضروری ہے کہ تمام مظلوم قومیتوں کی جاری تحریکوں کو طبقاتی بنیادوں پر ایک ملک گیر سطح کی تحریک میں جوڑا جائے اور اس خطے میں انقلاب کے ذریعے ایک رضاکارانہ فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے۔ ایک یہی راستہ ہے جس کے ذریعے سے بلوچستان کے عوام کو بھی ہر طرح کے مسائل سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔