حارث قدیر
شبیر میر کہتے ہیں کہ:’’عوام کو گلگت بلتستان کی تحریک سے بہت زیادہ امیدیں تھیں، لیکن تحریک بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ گلگت میں دھرنا تو جاری ہے لیکن اب اس میں تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گندم کی قیمتوں میں کمی کے نوٹیفکیشن سمیت دیگر اقدامات کی وجہ سے حکومت دھرنے کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کچھ لوگ مذاکرات کر کے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دھرنے میں شریک لوگ 15رکنی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔“
شبیر میر گلگت سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ہیں۔ وہ ملکی اور بین الاقوامی جرائد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے معاملات پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے گلگت بلتستان میں جاری تحریک کے حوالے سے ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی کا ڈھانچہ کس طرح ترتیب دیا گیا ہے اور اس میں کون کون سے سیاسی رجحانات موجود ہیں؟مین سٹریم سیاسی قیادت کا اس تحریک کے حوالے سے رویہ کیا ہے؟
شبیر میر: گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کا ڈھانچہ تقریباً حادثاتی طور پر ہی تشکیل دیا گیا تھا۔ 2008-09میں گندم کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں کے نفاذ کے اقدامات کے بعد لوگ جمع ہوئے اور احتجاج کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی کا پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا۔ اس کمیٹی میں 14سے زائد چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعیں، علاقائی جماعتیں، تاجر تنظیمیں اوردیگر تنظیمیں وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب نے ملک کر جدوجہد کرنے کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی قائم کی تھی۔
یوں اس عوامی ایکشن کمیٹی میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ قوم پرست بھی ہیں، تمام علاقوں اور اضلاع کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ مین سٹریم جماعتیں زیادہ تر پاکستان کی وفاقی پارٹیاں ہیں، ان کی پالیسیاں بھی پاکستان سے ہی بنتی ہیں۔ اس لئے ان کی زیادہ توجہ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف نہیں رہی۔
کیا گلگت اور بلتستان ڈویژن کی الگ الگ ایکشن کمیٹیاں ہیں، یا مشترکہ ایکشن کمیٹی ہے؟
شبیر میر: گلگت بلتستان میں تین ڈویژن ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی البتہ دو ڈویژن میں الگ الگ ڈھانچے کے طور پر موجود ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک ہی لوگ ہیں اور آپس میں اکٹھے ہی ہیں۔ جب بھی احتجاج ہوتا ہے تو یہ مل کر اپنی اپنی جگہ پر احتجاج کرتے ہیں۔ سب سے مضبوط عوامی ایکشن کمیٹی کا ڈھانچہ البتہ بلتستان میں موجود ہے، اس کے بعد گلگت میں ڈھانچہ مضبوط ہے۔
یہ تحریک کب اور کہاں سے شروع ہوئی تھی اور ابھی تک اس میں کس کس ضلع، دیہات اور شہر سے لوگ شامل ہو چکے ہیں؟
شبیر میر: یہ تحریک بھی پرانی ہی ہے۔ جو ہر کچھ عرصہ بعد دوبارہ شروع ہوتی ہے۔ اس کی ابتداء2008-09میں ہوئی تھی۔ موجودہ وقت اس تحریک کا آغاز دسمبر میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہوا ہے۔ دیہاتوں میں تو زیادہ تحریک کا اثر نہیں ہے، یا عوامی ایکشن کمیٹی کے ڈھانچے اس طرح موجود نہیں ہیں۔ البتہ اضلاع کی حد تک لوگوں کی بھرپور شمولیت موجود ہے۔ بلتستان ڈویژن کی زبان اور کلچر باقی علاقوں سے مختلف ہے، وہاں ڈویژن بھر میں یہ تحریک موجود ہے۔ اسی طرح گلگت میں ہے۔ غذر، ہنزہ، نگر میں بھی تحریک کا زور موجود ہے اور دیامر میں بھی۔ غذر میں بھی دو زبانیں بولی جاتی ہیں، دیامر بھی کلچر کے حوالے سے تھوڑا الگ ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں فرقہ وارانہ تقسیم بھی کافی گہری ہے۔ اس وجہ سے گراس روٹ لیول پر جس طرح تنظیمیں اور پارٹیاں منظم ہوتی ہیں اس طرح ایکشن کمیٹی منظم نہیں ہے، لیکن کمیٹیوں کے ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے ضرور موجود ہیں۔
اس وقت گلگت میں دھرنا جاری ہے یا ختم ہو گیا ہے؟ بلتستان کا قافلہ کس وقت پہنچ رہا ہے اور آگے کا لائحہ عمل کیا ہے؟
شبیر میر: گلگت میں دھرنا جاری ہے لیکن اب شرکاء کی تعداد گزشتہ دو روز سے مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے گندم کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن بھی ہے، جس کی وجہ سے مرکزی مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے بہت سی جماعتوں اور اضلاع کے لوگ واپس چلے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر نگر سے ایک بڑے قافلے نے آنا تھا لیکن قیمتیں کم ہونے کے اعلان کے بعد وہ قافلہ واپس چلا گیا۔ بلتستان کی طرف سے عوامی ایکشن کمیٹی کا کوئی وفد آ تو رہا تھا، لیکن بعد میں بتایا گیا کہ کہیں پر راستہ بلاک تھا اور وہ نہیں پہنچ سکا۔اب دھرنا تو جاری ہے، لیکن اس میں صرف قوم پرست رہ گئے ہیں اور تعداد بھی بہت کم ہے۔
گندم کی قیمتوں میں اضافے سے شروع ہونے والی تحریک نے 15رکنی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور ایک مرحلہ میں داخلی خودمختاری کا نعرہ لگا دیا گیا۔ مطالبات میں یہ بڑی تبدیلی آنے کی آپ کی نظر میں کیا خاص وجہ تھی؟
شبیر میر: داخلی خودمختاری کے نعرے کبھی کبھی لگتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل بھی قوم پرستوں نے یہ نعرے لگائے ہیں۔ چارٹرآف ڈیمانڈ میں بھی آئین ساز اسمبلی کے قیام کا مطالبہ شامل ہے۔ البتہ داخلی خودمختاری کے نعروں اور تقاریر کی وجہ سے ایک تقسیم بھی پیدا ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بڑے پیمانے پر علیحدگی کی بات نہیں ہوئی۔ داخلی خودمختاری کو بھی زیادہ لوگ علیحدگی کا نعرہ ہی تصور کرتے ہیں۔ ان نعروں کی وجہ سے کچھ لوگ الگ بھی ہوئے ہیں کیونکہ ان کے اثرات تھوڑہ سخت ہوتے ہیں۔ آف دی ریکارڈ بہت سارے لوگوں نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اس طرح کی نعرے بازی تحریک کیلئے نقصان دہ ہے۔ لوگوں کے دھرنے سے الگ ہونے کی ایک وجہ ان نعروں کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
گندم کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ایکشن کمیٹی نے تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن کچھ اعلانات سامنے آئے کہ تحریک اب ختم ہو گئی ہے۔ یہ کون لوگ تھے اور کتنی تعداد میں تھے جنہوں نے اعلان کیا اور اس سے تحریک پر کیا اثر پڑا؟
شبیر میر: اہل تشیع مسلک کی نمائندہ جماعت ’اسلامی تحریک پاکستان‘ نے اس تحریک سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ انکا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ دوسرا انہیں حکومت کے اندر کوئی نمائندگی بھی دی گئی ہے، ان کے دو لوگوں کو مشیر بھی لگایا گیا۔ ان کی تحریک سے علیحدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس وجہ سے تحریک کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر عوام کے تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مطالبات پورے کروائے جا سکتے ہیں۔ تاہم گندم کی قیمتوں میں کمی کے نوٹیفکیشن کے بعد جب تحریک سے علیحدگی کے اعلانات ہوئے تو زیادہ تر لوگ واپس چلے گئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہمارا مطالبہ پورا ہو گیا ہے اس لئے تحریک چلانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے ایکشن کمیٹی کے ایک رکن کے خلاف توہین کے الزام میں ایک درخواست بھی دی ہے، وزیر داخلہ شمس لون نے تحریک کے قائدین کو غیر ملکی ایجنڈے پر کاربند اور چند شرپسند قرار دیا ہے۔ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا ایک بار پھر تحریک کو مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھانے کی تیاری تو نہیں ہو رہی؟
شبیر میر: عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما راجہ ناصر کے خلاف ایف آئی آر کی درخواست اہل تشیع اور اہل سنت دونوں مسالک کی طرف سے دی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس تحریک کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ تحریکوں کو کمزور کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی رنگ بھی دیا جاتا ہے۔ البتہ راجہ ناصر کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کی کوئی ریکارڈنگ بھی ہے، جس میں انہوں نے تقریر یا گفتگو کرتے ہوئے کوئی مبینہ مذہبی منافرت کی کوئی بات کی ہے۔ میں نے ایسی کوئی ریکارڈنگ سنی تو نہیں ہے، البتہ انہوں نے بعد میں معافی بھی مانگی ہے اور کہا ہے کہ زبان کی پھسلن کی وجہ سے شاید ایسا ہوا ہے۔ اصل میں اس طرح کی جو بھی تحریک شروع ہوتی ہے تو باہر سے پیسہ لینے اور کسی اور کے ایجنڈے پر کام کرنے کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا متعدد بار ہو چکا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ڈرا کر پریشرائز کر کے تحریک کو ختم کروایا جائے۔ اس دفعہ بھی اس کا اچھا خاصہ اثر پڑا ہے۔ جو لوگ چھوڑ کر گئے ہیں، اس کی ایک یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے بھی دو روز سے رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔مذاکرات کے حوالے سے اصل صورتحال کیاہے؟
شبیر میر: کچھ لوگوں نے مذاکرات تو کئے ہیں۔ ان کے مفاد اور مقاصد حاصل ہوئے تو وہ تحریک سے بھی الگ ہو گئے۔ کچھ لوگ جو ابھی دھرنے میں موجود ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے 15نکات ہیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات کیلئے وزیر اعلیٰ نے وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی تھی۔ اب ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کمیٹی میں تو بس دو وزیر ہیں اور باقی جعلی مشیر ہیں، جن کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور حکومتی وزراء کی کمیٹی پوری نہیں کر رہی ہے۔ اس لئے اب جب تک وزیر اعلیٰ خود وزراء کے ہمراہ آکر مذاکرات نہیں کرینگے، تب تک دھرنا جاری رکھا جائے گا۔
عام شہریوں کا اس تحریک کی طرف رجحان کس طرح کا ہے اور گلگت بلتستان میں کس طرح کی امیدیں اس سے وابستہ ہیں؟
شبیر میر: عام شہری تو اس تحریک سے بہت زیادہ امیدیں لگائے ہوئے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بجلی، پانی اور روزگارجیسے مسائل کے حوالے سے بھی مطالبات کو شامل کیا جانا چاہیے۔ گلگت کے مقامی شہری زیادہ دھرنوں میں دلچسپی نہیں لیتے، آتے جاتے بس دیکھنے کی حد تک شامل رہتے ہیں۔ البتہ اس مرتبہ گندم کے ایشو کے بعد جب دیگر اضلاع سے لوگ آنا شروع ہوئے تو مقامی سطح پر بھی لوگوں کی تحریک میں شمولیت کا رجحان بڑھا ہے۔ اب جب یہ تحریک کمزور پڑ گئی ہے تو لوگوں کی توجہ بھی اس طرح سے نظر نہیں آرہی ہے۔