نقطہ نظر

بی جے پی کے 180 ملین اراکین، 800 این جی اوز اور 36 ونگ ہیں

ڈینیئل ڈینور

انتہائی دائیں بازو کا عروج ایک عالمی رجحان ہے۔ شاید دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت سے زیادہ کہیں اوردایاں بازو اتنامضبوط نہیں ہے۔ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں 2014 سے اقتدار پر قابض ہے۔

تاہم بی جے پی محض ایک پارٹی نہیں ہے۔ بی جے پی اور ان کی کیڈر آرگنائزیشن ہندو قوم پرست نیم فوجی رضاکار وں پر مشتمل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا نظریہ ایک عسکری، جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارتی عظمت کا راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا ویژن بھی ہے جس میں مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور اس لیے انہیں حال میں بھی یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

‘جیکوبن ریڈیو ’کی پوڈ کاسٹ ‘The Dig’کے لیے ایک انٹرویو میں اچن ونائیک کے ساتھ بھارت کے اہم سیاسی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔

اچن ونائیک ایک مصنف اور سماجی کارکن ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور دہلی میں قائم بین الاقوامی ادارے ایمسٹر ڈیم کے فیلو ہیں۔ وہ ‘The Bourgeois Democracy in India and The Rise of Hindu Authoritarianism: Painful Transition’کے مصنف ہیں۔ ڈینیئل ڈینور کے ساتھ ان کے ریڈیو انٹرویوکو ‘جیکوبن’ کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے، جس کے ایک حصے کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

بھارتیہ جنتا پارٹی

وزیر اعظم نریندر مودی کون ہیں؟ اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی )کیا ہے؟

اچن ونائیک:نریندر مودی نے بچپن میں ہی آر ایس ایس، جسے قومی رضاکار تنظیم کہا جاتا ہے ،کے ساتھ اپنی وابستگی شروع کی۔ اور وہ ان کے نظریے میں بہت زیادہ مائل تھے۔ نوعمری کے اواخر میں وہ آر ایس ایس کے کل وقتی رکن بن گئے اور آہستہ آہستہ تنظیم کی درجہ بندی میں اوپر ہوتے گئے۔

1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں بی جے پی میں تبدیلی کرتے ہوئے مودی نے اپنے رینک میں اضافہ کیا،اس سلسلہ میں آر ایس ایس نے بی جے پی کو رام جنم بھومی مہم سمیت مختلف کرداروں کے لیے ان (مودی)سمیت دیگر اہلکار فراہم کیے تھے۔ بعد میں انہیں بی جے پی کے تحت گجرات کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا، اورخاص طور پر مسلمانوں کے خلاف 2002 کے قتل عام کے بعد انہیں اہمیت حاصل ہوئی، جس میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ آر ایس ایس کے حامیوں میں ان کی مقبولیت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب انہوں نے گجرات میں لگاتار انتخابات جیتے،اس کی وجہ سے 2014 کے عام انتخابات سے عین قبل آر ایس ایس کی بنیاد میں ان کی حمایت میں مزید اضافہ ہوا۔

2013 میں مودی کو بی جے پی کا وزارت عظمیٰ کا امیدوار مقرر کیا گیا، اس مقصد کیلئے کئی سینئر رہنماؤں کو نظر انداز کیا گیا، جو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ یہ مودی کے سیاسی کیریئر کا ایک قابل ذکر لمحہ ہے۔

آپ کا دوسرا سوال بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں تھا۔ بی جے پی سنگھ پریوار کے انتخابی ونگ کے طور پر کام کرتی ہے، سنگھ پریوار آر ایس ایس سے وابستہ انجمنوں اور تنظیموں کا نیٹ ورک ہے،اور اس کی بنیادی تنظیم ہے۔ یہ نیٹ ورک وشو اہندو پریشد (وی ایچ پی) یا ورلڈ ہندو کونسل کو بھی گھیرے ہوئے ہے، جس کی شاخیں بشمول امریکہ عالمی سطح پر ہیں۔

اس میں تنظیموں کی ایک وسیع فہرست شامل ہے، بشمول ویمنز ونگ، ٹریڈ یونین فیڈریشن، اور بجرنگ دل، یا ہنومان کے سپاہی کے نام سے جانا جانے والا ایک گروپ، جسے پروٹیکشن سکواڈ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ ماضی میں1951 سے 1977 تک اسکے الیکشن ونگ کو ‘جن سنگھ ’کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پھر 1977 میں یہ ایک حکمران اتحاد میں شامل ہوا ،جس نے اندرا گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ جن سنگھ کو 1979 میں آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے جنتا پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

1980 کے بعد سے اس نے خود کو بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے طور پر دوبارہ برانڈ کیا اور بھارتی سیاست میں مستقل طور پر نمایاں مقام حاصل کیا۔ بی جے پی کا اقتدار میں پہلا ابھارکانگریس پارٹی کے زوال کے ساتھ ہوا، جس سے بی جے پی نے آخرکار فائدہ اٹھایا۔

اس خلا میں بی جے پی کا اقتدار تک پہنچنے کا راستہ کانگریس کی طرح تین دیگر سنٹرسٹ جماعتوں کے راستے پر چل پڑا، جس نے تین الگ الگ مواقع پر اتحاد کی قیادت کی۔ تاہم، ان میں سے کوئی بھی اتحاد اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

انتخابی اور حکومتی دونوں جگہوں میں کانگریس پارٹی کے زوال کے بعد اس کی جگہ تین مختلف اتحادوں نے لی، جن کی قیادت سنٹرسٹ جماعتیں کر رہی تھیں۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی پارٹی خود کو مستحکم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے کے بعد ہی بی جے پی 1998 میں ایک اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار میں آتی ہے۔ پھر یہ 2004 میں اقتدار سے باہر ہوتی ہے۔

اس کے بعد کانگریس کی 10سالہ حکومت تھی، جو ایک اتحاد کی قیادت کر رہی تھی۔ پھر 2014میں یہ (بی جے پی) 31فیصد ووٹوں کے ساتھ، لیکن واحد اکثریتی پارٹی کے طورپر اقتدار میں آتی ہے۔ بھارت کے پہلے ماضی کے بعد کے انتخابی نظام کی وجہ سے ووٹ شیئر اور پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد کے درمیان تناسب نہیں ہے۔

تاہم تاریخی طور پر کانگریس کی طرح واحد پارٹی اکثریت والی جماعتوں نے عام طور پر 41 فیصد اور 49 فیصد کے درمیان ووٹ شیئر حاصل کیا۔ اس کے برعکس 2014 میں بی جے پی نے صرف 31 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کمزور اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہندی بولنے والی مرکزی اور شمالی بھارت کی اہم ریاستوں میں اس کا غلبہ تھا۔

اس کے بعد 2019 میں اس نے اپنا ووٹ شیئر 31 فیصد سے بڑھا کر 37 فیصد کر دیا اور سیٹوں کے لحاظ سے کافی اکثریت حاصل کی۔ یہ بھارت کے شمال، مغرب اور مرکز میں اس کے ووٹ کا مرتکز کردار ہے جو اس کا سبب بنتا ہے۔ یہاں تک کہ کم ووٹ شیئر کے ساتھ بھی اس کی کافی اکثریت تھی۔

یہ کہتے ہوئے ہمیں اس کے نظریات کے بہت سے تھیمز کی بالادستی کی اس حد کو کم نہیں سمجھنا چاہئے جو اس نے قائم کی ہے ۔

ہندو قوم پرستی

بی جے پی ہندوتوا کی حمایت کرتی ہے، جو کہ ہندو قوم پرستی کی ایک شکل ہے جس کا انگریزی میں اکثر ترجمہ ”Hinduness” کیا جاتا ہے۔ وہ کونسا ہندوتوا ہے جسے وہ بنانا چاہتی ہے؟ اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں نے اتنی طاقت کیسے پیدا کی ہے کہ جس کو آپ بڑھتی ہوئی فاشزم کی شکل کے طور پر بیان کرتے ہیں ؟

اچن ونائیک:میں اسے فاشسٹ خصوصیات والی قوت کہتا ہوں۔ بھارتی سیاق و سباق میں اس بارے میں بحث جاری ہے کہ آیا بی جے پی فاشزم کی ایک اور شکل یابنتر ہے یا اس میں فاشسٹ خصوصیات ہیں۔ لیکن کسی بھی طرح سے یہ واضح فاشسٹ خصوصیات کے ساتھ انتہائی بدصورت دائیں بازو کی قوت ہے اور یہ ایک بہت بڑے خطرے کی نمائندگی کرتی ہے۔

ہندوتوا کا لفظی مطلب ہندویت (Hinduness)ہے۔ آپ نے اس کی درست نشاندہی کی ہے۔ دلیل بنیادی طور پر یہ ہے کہ ہندویت بھارت کا اوربھارتی قوم پرستی کا جوہر ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی قوم پرستی کی بنیاد ہندو پرستی ہے، اور اس لیے یہ بنیادی طور پر ایک ہندو قوم پرستی ہے۔ بہت سے دیگر ملکوں کی طرح یہاں بھی نسلی بنیاد پر قوم پرستی ہے ، ایک مذہبی قوم پرستی ، جسے اس کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تصور کس طرح پھیلا اور تیار ہوا؟

یہاں ہمیشہ سے قوم پرستی کا مقابلہ ہوتا رہا ہے۔ قومی تحریک کے دور میں ایک اوردھارا ،جو جامع قوم پرستی کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی قیادت کانگریس پارٹی کر رہی تھی، لیکن بھارت کے ہندو جوہر کے تصور کے بارے میں ہمدردی رکھنے والے اہم زیریں دھارے ہمیشہ رہے ہیں۔

ہندوتوا کو ہندوازم سے الجھانا نہیں چاہیے۔ ہندو ایک سیاسی کنسٹرکٹ ہے۔ ہندوازم بلاشبہ ایک مذہب ہے اور تمام مذاہب کی طرح یہ پولیٹکل کنسٹرکشن اور سیاسی تحریکوں اور جدوجہد کی تشکیل کے لیے استعمال تا ہے۔ اطالوی اور جرمن فاشزم سے متاثر ہوکر آر ایس ایس کی بنیاد 1925 میں رکھی گئی تھی۔ 1980 کی دہائی کے وسط تک اس کا انتخابی اثر و رسوخ نہیں تھا۔

تاہم انہوں نے بھارت کے شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں نمایاں اثر و رسوخ حاصل کیا، اور سول سوسائٹی کے اندر گہری جڑیں پکڑیں۔ ان کی کامیابی کا انحصار ان کی نچلی سطح پر وسیع پیمانے پر موجودگی پر ہے، جہاں یہ مختلف سماجی ضروریات اور قصبوں اور شہروں میں مسائل کو حل کرتے ہیں۔

اب ظاہر ہے پچھلی دو دہائیوں میں وہ دیہات تک بھی پھیل چکے ہیں اور یہ سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ ان کا بائیں بازو کی روایتی طاقت کے مانند نظریاتی طور پر پرعزم اور نظم و ضبط پر کاربند رہتے ہوئے بنیادوں کو فروغ دینا اہم رہا ہے۔ انتخابی صلاحیت کے فقدان کے باوجود انہوں نے یورپ میں جنگ کے دور کی طرح کے چیلنجنگ ادوار کے دوران بائیں بازو کی تحریکوں کے ابھارکے متوازی ہوتے ہوئے خود کو برقرار رکھا ہے۔

وہ نچلی سطح پر وسیع تنظیم رکھنے والی واحد قوت کے طور پر سامنے آئے۔ جب عالمی سطح پر آر ایس ایس اور اس سے وابستہ گروپوں کا موازنہ دیگر انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں سے کیا جائے تو کئی امتیازات سامنے آتے ہیں، جو ان کی طاقت کی وضاحت کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

ایک لمبی عمر ہے۔ کیا یورپ میں یا شمالی امریکہ میں یا کسی اور جگہ کوئی اور انتہائی دائیں بازو کی طاقت ہے جو 90 سالوں سے مسلسل موجود ہے؟

دوسرا دنیا میں کہیں بھی فاشسٹ خصوصیات والی انتہائی دائیں بازو کی قوتیں نہیں ہیں ، یا جو بھی آپ انہیں کہنا چاہتے ہیں ، جن کا نچلی سطح پر اس قدر گہرا تعلق ہے۔ سول سوسائٹی میں ان کی بے مثال مداخلت ہے۔ ان کا کیڈر عملدرآمد بہت گہرا ہے۔

1947 سے لے کر 1960 کی دہائی کے آخر تک کانگریس کی بالادستی کے دوران بھی آر ایس ایس نے تعداد کے لحاظ سے ایک مضبوط کیڈر بیس قائم کیا۔ نیز آر ایس ایس نے مصر میں حماس جیسی تحریکوں کی طرح متعدد وابستہ تنظیموں کو جنم دیا ہے،جو اپنی رسائی اور اثر و رسوخ کو بڑھا رہی ہیں۔ اس وسیع امپلانٹیشن نے انہیں سیکولر ضروریات، ترقیاتی منصوبوں، آفات سے نجات کی کوششوں، اور ثقافتی اقدامات کو حل کرنے کے قابل بنایا ہے، جس سے انہیں بھارتی معاشرے میں ایک منفرد فائدہ ملتا ہے۔

یہ بھارت کے مخصوص خطوں میں بائیں بازو کی جماعتوں کے علاوہ کسی بھی دوسری طاقت کے برعکس اس گنجائش سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی۔ انتہائی بائیں بازواور مرکزی دھارے کے بائیں بازو نے تاریخی طور پر انتہائی دائیں بازو کے ساتھ ایک مشترکہ خصوصیت کا اشتراک کیا ہے: جو ایک مضبوط کیڈر پر مبنی ڈھانچہ ہے۔

کانگریس پارٹی کے پاس قومی تحریک کے دور میں کارکن موجود تھے، لیکن اس کے بعد اس کا نظریہ ایک کھچڑی نما تھا۔ اس کے پاس روایتی حامیوں سے الگ ‘کیڈرز ’کبھی بھی نہیں تھے ، اور سرپرستی اور کلائنٹسٹ نیٹ ورک سے منسلک قیادت کا ڈھانچہ تھا۔ اس طرح بی جے پی بہت تیزی سے پھلی پھولی۔ اس کے سائز کا اندازہ لگانے کے لیے میں آپ کو کچھ رف اعداد و شمار دیتا ہوں۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس کے ارکان کی تعداد 180 ملین ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے بڑی ہے۔ تاہم غیر فعال اراکین کو ایک اشارہ دے کر اس ممبرشپ میں دسیوں لاکھ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود اس سے بی جے پی کیلئے غیر فعال ممبرشپ کی مقبولیت کی نشاندہی ہورہی ہے۔

پارٹی کے پاس تقریباً 800 این جی اوز ہیں جو ہر طرح کا کام کر رہی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشن اور اسٹوڈنٹ فیڈریشن سمیت اس کے36ونگ ہیں۔ مزید برآں اسکے پاس خواتین کا ایک قابل ذکر ونگ موجود ہے اور وشوا ہندو پریشد کی نگرانی کرتی ہے، اندرون ملک اور بیرون ملک ثقافتی اور مذہبی امور کا انتظام کربھی کرتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق آر ایس ایس کے تین سے پانچ ملین ممبران ہیں۔ اس میں فل ٹائمرز کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اس کی مختلف شہروں اور قصبوں کے دیہی علاقوں میں تقریباً 60 ہزار شاخیں ہیں۔

جب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک کیڈر آرگنائزیشن ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔

اچن ونائیک:ہاں ،آر ایس ایس اپنے بہت سے ملحقہ ونگزکے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ٹریڈ یونینوں اور طلبہ تنظیموں سمیت یہ کہیں اور کاموں کی نگرانی کے لیے فل ٹائمرز فراہم کرتی ہے۔ اس کی درجہ بندی کی ساخت اوپر سے نیچے تک اطاعت کو یقینی بناتی ہے۔ یہ مؤثر نگرانی اور ہم آہنگی کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔

اور یہ واقعی اس کی طاقت کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس میں فل ٹائمرز کی خاصی تعداد ہے، حالانکہ صحیح تعداد واضح نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ کل وقتی نہیں ہیں اور فعال ممبر ہیں، تب بھی آر ایس ایس ان کی بھرپور شمولیت یقینی بناتی ہے۔ یہ باقاعدگی سے ہفتہ وار میٹنگز کرنے والی سب سے بڑی ‘ٹرول آرمی ’ہے۔ آر ایس ایس نے مہارت کے ساتھ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں پیشرفت کو اپنایا ہے، یہ اپنے پیغام کو پھیلانے میں بہت ماہر ہے۔ اس کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں کہنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے، لیکن میں اس کی طاقت کا احساس دلانے کے لیے اتنا کافی ہے۔

(جاری ہے)

Roznama Jeddojehad
+ posts