خبریں/تبصرے

سعد حریری کا استعفیٰ: نیو لبرلزم کیخلاف عالمی بغاوت کی پہلی فتح!

فاروق سلہریا

لبنان میں 17 اکتوبر سے جاری عوامی مظاہروں سے مجبور ہو کر گزشتہ روزلبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے استعفیٰ دے دیا۔

گزشتہ روز لبنان کے دارلحکومت بیروت میں مظاہرین کے خیموں پر مسلح گروہوں نے حملے کئے۔ خیمے اکھاڑ دئیے گئے اور دارلحکومت میں زبر دست گڑ بڑ رہی۔ حملہ آوروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق حزب اللہ سے تھا۔ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ ان مظاہروں کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مظاہرے ان کی تنظیم کے خلاف ایک عالمی سازش ہیں۔ واضح رہے، ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔

لبنان میں شروع ہونے والی یہ عوامی بغاوت فوری طور پر تو واٹس ایپ پر ٹیکس لگانے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی مگر اصل وجہ مہنگائی، غربت اور سرمایہ دار و مذہبی سیاستدانواں کی بدعنوانیاں اور بدمعاشیاں تھیں۔ لبنان اگر ایک طرف دنیا کا مقروض ترین ملک ہے تو دوسری طرف ایک تہائی کے قریب آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہتی ہے۔

لبنان میں مظاہروں کا نقطہ عروج بیس اکتوبر کو بیروت میں ہونے والا ملین مارچ تھا۔ اس مارچ کے بعد سعد حریری نے نہ صرف واٹس ایپ ٹیکس واپس لے لیا بلکہ بہت سے دیگر وعدے وعید بھی کئے۔

مظاہروں کے دوران ایک دلچسپ تصویر وہ تھی جو عالمی میڈیا میں نمایاں کی گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین سے نپٹنے والے فوجی مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں اور مظاہرین انہیں دلاسا دے رہے ہیں۔

عوامی بغاوتیں ریاست کے ہر ستون کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔

موجودہ مظاہرے خود رُو تھے۔ یہ مظاہرے نہ صرف مہنگائی کے خلاف تھے بلکہ سیاسی جماعتوں اور لبنان کے سیاسی ڈھانچے کے بھی خلاف تھے جو فرانسیسی سامراج نے اس ملک پر مسلط کیا تھا۔ مظاہرین فرقہ واریت پر مبنی نظام کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں مگر ان کی اپنی کوئی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے ایک بے یقینی کی سی کیفیت موجود ہے۔

عین ممکن ہے اس تحریک کے بعد کچھ ایسی تنظیمیں جنم لیں جو فرقہ واریت سے بالاتر ہوں۔ ایک بات طے ہے کہ کسی بھی ممکنہ سیاسی پیش رفت میں لبنان کی خواتین کا ایک اہم کردار ہو گا کیونکہ اس عوامی بغاوت میں وہ سب سے آگے تھیں۔ عرب دنیاکے رجعتی حلقوں میں ان کو ”گڑیائیں“  کہہ کر مذاق اڑایا گیا جس کے جواب میں لبنانی خواتین نے فخریہ کہا کہ”وہ انقلابی ہیں، کوئی گڑیا وڑیا نہیں“۔

دریں اثنا، چلی میں بھی دو ہفتے سے مظاہرے جاری ہیں۔ کابینہ مستعفیٰ ہو چکی ہے۔ میٹرو کے کرائے میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والی تحریک اب صدر پنیرا سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔

اسی طرح عراق میں ایک عوامی بغاوت پھوٹی ہوئی ہے۔ ایک سو سے زائد افراد گولیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ عراق میں بھی عوامی غضب کا نشانہ مذہبی سیاستدان ہیں جو حکومت بھی چلا رہے ہیں اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈ بھی بنا چکے ہیں۔ سب سے اہم یہ بات کہ عراقی

حکمران اشرافیہ انتہائی بے دردی سے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نوجوان اس تحریک کا ہراول دستہ ہیں۔ جوں جوں تشدد بڑھ رہا ہے، توں توں تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔

مزید استعفوں کی خبریں کوئی حیرتناک بات نہ ہو گی۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔