حبیب جالب
اک حسیں گاؤں تھا کنار آب
کتنا شاداب تھا دیار آب
کیا عجب بے نیاز بستی تھی
مفلسی میں بھی ایک مستی تھی
کتنے دل دار تھے ہمارے دوست
وہ بچارے وہ بے سہارے دوست
اپنا اک دائرہ تھا دھرتی تھی
زندگی چین سے گزرتی تھی
قصہ جب یوسف و زلیخا کا
میٹھے میٹھے سروں میں چھڑتا تھا
قصر شاہوں کے ہلنے لگتے تھے
چاک سینوں کے سلنے لگتے تھے