قیصر عباس
انسانی ارتقا کی تاریخ ہجرتوں کی ان گنت داستانوں سے عبارت ہے جہاں روزِ اول ہی سے مختلف قومیں، قبائل اور استعماری قوتیں بہتر آب و ہوا، قدرتی وسائل یا امن و آتشی کی تلاش میں اپنی آبائی تہذیب کو خیرباد کہہ کر اجنبی سرزمینوں پرآباد ہوتے آئے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کھنگالیے تو نظر آتاہے کہ ہجرتوں کی یہ کہانیاں کسی ایک نسل تک محدود نہیں بلکہ بیشتر قومیں ہجرتوں کے ان سلسلوں کی پھیلی ہوئی کڑیاں ہیں۔ آریا سماج نے اپنی عسکری برتری کے سہارے سرزمین ِہند پرقبضہ کیا تو یہاں کے حقیقی باشندوں کی ثقافت و مادی وسائل پراس اندازمیں ڈاکہ ڈالا کہ ان کی تاریخ، معاشرت اور تہذیب کا نام و نشاں تک باقی نہ رہا اور آج ان ہی کے لائے ہوئے رسوم ورواج ہندو مذہب کی صورت میں اس خطے کی پہچان بن گئے ہیں۔
ذرا اورآگے آئیے تو یورپی نوآبادکار افریقہ، ایشیا اور شمالی و لاطینی امریکہ پر بزور شمشیر قبضہ کرتے نظر آئیں گے جنہوں نے نہ صرف ان علاقوں کے اقتصادی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا بلکہ ان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافی ورثوں کوبھی پامال کرنے کی ناکام کوشش کی۔ استحصال کا یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے۔ چہرے بدل گئے ہیں مگر سامراجی حربے وہی ہیں۔ ہجرتیں تو انفرادی سطح پراب بھی ہوتی ہیں مگر جدید دور کی سمٹتی ہوئی اس دنیا میں بھی استعماراپنے پورے طمطراق سے موجود ہے۔ کہیں تجارت، کہیں ٹیکنالوجی اورکہیں آگ اورخون کے خوفناک کھیل کی صورت میں۔
نسیم سید نے نوآبادیاتی جبر کی اسی داستان کا ایک اہم باب ”یورپی نوآبادیات کے ایبوریجنل (آدی باسی) ادب پر اثرات“ کے عنوان سے سپردِ قلم کیا ہے۔ انہوں نے شمالی امریکہ کے حقیقی باشندوں، جنہیں ریڈ انڈین اورایبوریجنل کے علاوہ بھی کئی اور ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، کی شاعری کے اردو تراجم تحریر کیے ہیں جو اس قوم پر ہونے والے ظلم وجبر کی اندوہناک داستانیں ہیں اورانسانی ہجرتوں کے عذابوں کی روداد بھی۔ لیکن یہ کتاب صرف گیتوں اورنظموں کے ترجموں پر مبنی نہیں ہے۔
مصنفہ نے ان باشندوں کی تاریخ پرایک ضخیم مقالہ بھی بڑی محنت سے شامل ِکتاب کیا ہے تاکہ اردو کے قارئین کو اس نسل کی ثقافت، زبان اورمعاشرت کے حوالے سے شاعری کے اصل معانی کا سیرحاصل ادراک بھی ہوسکے۔ تاریخی حوالوں اورجدید تحقیق کی بنیادوں پران کی یہ تصنیف اوربھی مستند ہوگئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ تصنیف ترجمے سے ایک قدم آگے بڑھ کرشمالی امریکہ کے انڈینزکے تہذیب و تمدن کا ایک معتبرحوالہ بھی ہے۔
یہ اس قوم کی کہانی ہے جوبرفانی دورمیں ایک بڑے قافلے کے ساتھ سائبیریا سے کوچ کرکے شمالی امریکہ پہنچی اوراس خطے کو اپنا مسکن بنایا۔ سینکڑوں سال بعد جب یورپی نوآبادیاتی تسلط کولمبس کے ذریعے یہاں تک پہنچا تواپنے جدید ہتھیاروں کے ذریعے ان کو فتح کرنے میں کامیاب تو ہوا مگر ان کی فکری اور موروثی تہذیب، جو شاعری اور ادبی فن پاروں کی صورت میں اب تک محفوظ ہے، کو تباہ نہ کرسکا۔ نسیم سید نے اسی ادبی میراث کا اردو ترجمہ ہم تک پہنچانے کا مشکل کام کیاہے۔
شمالی امریکہ کے قدیم باشندوں کی شاعری کے یہ تراجم تاریخی اعتبارسے دو ادوارپر مشتمل ہیں۔ وہ شاعری جوقدیم ثقافتی ورثے کے طورپر سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی اوران دانشوروں کے شاہکارجنہوں نے آج کے جدید دورمیں رہتے ہوئے اپنی زبان اور نوآبادیاتی زبان انگریزی میں بے مثال شاعری تخلیق کی۔ دونوں ادوار کی شاعری پڑھیں توحیرت ہوتی ہے کہ جس سماج کو ہم سامراجی پراپیگنڈے کے تحت اب تک غیرمہذب اورجاہل سمجھتے رہے اس کا فکری اثاثہ اتنا معیاری بھی ہوسکتاہے کہ اسے آج کے جدید ادب کے مد مقابل رکھا جاسکتاہے۔
یوں تو نوآبادیاتی جبراوراستبداد میں پسے ہوئے معاشرے کاہرفرد اس ظلم وستم کا نشانہ ہوتاہے لیکن اس معاشرے کی عورت دوہرے جبرسہتی ہے۔ وہ پسے ہوئے ماحول کے ایک فرد کی حیثیت سے اورپھر جسمانی طورپرناتواں ہونے کے ناطے جابر سامراج کا بیک وقت نشانہ بنتی ہے۔ اور بقول نسیم اس لئے بھی کہ وہ افزائش نسل کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس دوہرے عذاب کا احساس انڈین نسائی شاعری میں بھی جگہ جگہ دکھائی دیتاہے۔
لنڈا ہیگن کی ایک نظم کایہ بند دیکھیں جس میں عورت جنسی جبر کا نشانہ بنتی نظرآ رہی ہے:
وہ ہم میں سے کسی کوبھی
کسی بھی وقت بے لباس کرسکتے تھے
ہمارے گندے جسم کو استعمال کرکے
قتل کرسکتے تھے
یا سڑک پرہمیں دیکھ کے
اپنی گاڑی سے کچل سکتے تھے
سامراج جب کسی معاشرے کو اسیر کرتا ہے تو اسے خود سے کمتر ثابت کرکے اسے اس کی”جہالت“ سے نجات دلانا بھی اپنا فرض سمجھتاہے۔ مشہور محقق ایڈورڈ سعیدنے اسی نظرئیے کوپیش کرتے ہوئے اسے”اورینٹل ازم“ کانام دیا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ نوآبادیاتی نظام نے کمزور اقوام پر قبضے کا جواز یہ نکالا کہ یہ نسلیں فطری طور پر کمتر ہیں جنہیں بہتر بنانے کے لئے ان پرقبضہ کرنا ضروری ہے۔ امریکی سامراج نے بھی ریڈ انڈین معاشرے کی”اصلاح“ کا بیڑہ اٹھایا تو ان کے بچوں کو خاندانوں سے الگ کرکے انگریزی مدرسوں میں داخل کیاگیا۔
لایانا مارسل کی نظم ’اسیری‘ ایک اجتماعی دکھ کا اظہار کرتے ہو ے استبدادکی ہی تصویردکھارہی ہے جوعورت پر دوہرے عذاب کا ایک اور رخ بھی ہے:
میں ان جیسی نہیں ہوں
میں تمہارے بنائے اور سمجھائے
سانچے میں ڈھل چکی ہوں
میں نے تمہاری پلائی ہوئی
شراب کے نشے سے خود کو دھت کرلیا
تمہاری زبان بڑی محنت سے سیکھی
تمہاری عورتوں جیسا بننے کی کوشش کی
اپنی زبان اور تہذیب سے الگ ہونے کا یہ غم ریڈ انڈین قوم کے کئی شعرا کے کلام میں موجود ہے۔ جہاں لایانا مارسل انگریزی اسکولوں کو ایک عقو بت خانے سے تشبیہ دیتی ہیں وہاں تانیا بگس اس تعلیم کو جھوٹ قراردے کرکہتی ہیں:
میں تمہاری سیاہ ہدایت پر سفید جھوٹ لکھ رہی ہوں
کیوں کہ مجھے امتحان پاس کرناہے
فنا اوربقا فلسفہ حیات کے اہم موضوعات ہیں جنہیں جدید نثراورنظم کے خالقوں نے اپنی نگارشات میں پرکھا ہے۔ ہمارے صوفی ادب میں بھی اس موضوع کا خاصا تذکرہ موجود ہے لیکن ایک ریڈ انڈین شاعرہ جب اسی موضوع پر بات کرتی ہے تو اس کے اپنے معاشرے کا تمام دکھ بھی اس میں شامل ہوجاتاہے۔ مارسل ہی کی ایک نظم کا آخری بند:
جب زندگی بے جان ہوکے
اپنی ہی جڑوں میں خاک ہوجائے
تو پھر اس کھاد سے
اس کے وجود کی نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں
فنا میں بقا کا معجزہ
تصویر کا دوسرارخ
پتیاں پرچھائیوں میں تبدیل ہوکے
گھنے سائے اگاتی ہیں…
ریڈ انڈینز کے یہ نغمے کبھی ان کے بزرگوں کی یادوں کے خواب، کبھی شہیدوں کے نوحے اور کبھی زمین کی محبت کے پیماں بن کرلفظوں کے رنگارنگ نگینوں کو احساس کی زمینوں میں بوتے نظرآتے ہیں۔ مگران کا یہ شاعرانہ تخیل صرف نوحوں اور ظلمتوں کی داستان نہیں ہے۔ ایک اورشاعر لیقیت اپنی نظم ”سارے رنگ تمہارے ہیں“ میں قوس قزح کے سارے رنگ اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیتے ہیں:
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے جیسے چاہو فال نکالو
جیسے چاہو بات بنالو
جیسی چاہو فصل اٹھالو
سارے اجلے رنگ تمہارے ہاتھوں میں ہیں
اردگردکے خوفناک اندھیروں میں بھی ریڈ انڈینز کے گیت امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اورپھریہی امید آنے والی کل کا گیت بن کراوپرنگالک جیسے شاعرکا کل اثاثہ بن جاتی ہے:
سویرا جب تلک نئے سویرے کو جنم نہ دے
اسی طرح اسیر ہوں
یونہی، یہاں پڑے پڑے
میں ایک گیت گاؤں گا
میں ٹوٹی ہمتوں کو جوڑنے کا گیت گاؤں گا
ڈائین برنز کی نظم ”قلم کی برچھی“ احتجاج اور مزاحمت کا ایک ایسا استعارہ ہے جس میں ایک طرف استبداد کا دکھ اور دوسری طرف ظلم سے مقابلے کاعزم بھی جھلک رہاہے۔ اورشاعرہ کے قلم کی برچھی اس کے انتقام کا عزم بن کر ابھر رہی ہے:
اور میں بنچ پر بیٹھی
سورج کے نکلنے کا انتظار کررہی ہوں
مجھے اپنا گھر یاد آرہاہے
میں اپنے کھیتوں کی بو سونگھ رہی ہوں
میری کلائی قید با مشقت جھیل رہی ہے
مگر میری انگلیاں برچھی تراش رہی ہیں
قلم کی برچھی
مجھے اس برچھی سے اپنے لوگوں کی جنگ لڑنی ہے!
ادب کے یہ نادرفن پارے نسیم سید کے تراجم کے ذریعے کہیں اس معاشرے کے اجتماعی دکھ کی نمائندگی کرتے ہیں اورکہیں انفرادی افسردگی کا نہ مٹنے والااحساس شاعری کے پیکرمیں ڈھالتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ کہیں یہ اپنے معاشرے کی روایات کی نشاندہی کرتے ہیں اورکہیں صنف ِنازک کے گھمبیرمسائل اجاگرکرتے ہیں۔ بہرصورت ان کا ادبی معیار، فکری نہج اور جمالیاتی زاویہ نظرجدید ادب سے کم نظرنہیں آتا۔
پولاگن ایلن اپنی نظم ’ہمارے جد کی نیلامی‘ کے ذریعے بربریت کے ہتھکنڈوں کو کچھ اس طرح طشت ازبام کرتے ہیں:
اس مالِ غنیمت کی تصاویر بنائی گئیں
تاکہ ان کی نیلامی ہوسکے
ہمارے بے قیمت اجداد کی
ننگی لاشیں ایک دوسرے پر پڑی تھیں
اور ان کی استعمال شدہ چیزوں کی قیمت لگ رہی تھی-
نسیم سید کی یہ نئی تصنیف ہم جیسے دیسیوں کے لئے ایک ناقابلِ یقیں کوشش بھی ہے جوپڑھناتو درکنار اپنے ماحول کے ارد گرد دیکھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ اس نئی کتاب کے تاریخی حوالے اورشاعری کے نت نئے رنگ ہمیں ایک ایسے جہانِ نو سے متعارف کراتے ہیں جو اس سے پہلے ہمارے ادراک میں نہیں تھا۔ اس تصنیف کے ذریعے نسیم ہمیں اس معاشرے میں لاکھڑاکرتی ہیں جو نوآبادیاتی نظام کے ظالمانہ رویئے کے نتیجے میں اب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے مگراس کا ادبی ورثہ اب بھی زندہ و جاوید ہے۔
ایک اوررخ سے دیکھیں تو یہ ادبی کاوش ہمارے اپنے معاشرے کا آئینہ بھی ہے جہاں ہم اپنی اقلیتوں کو زیر رکھ کرنہ صرف ان کااستحصال کرتے ہیں بلکہ ان پرایک باوقارزندگی کے تمام راستے بھی بند کردیتے ہیں۔ ہم اپنی بیٹیوں، بیٹوں اورصنفِ نازک کوفرسودہ عقیدوں، خاندانی وقاراورسماجی روایات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ کبھی زمین کے لئے اورکبھی صرف اس لئے کہ وہ اپنی زندگی اپنے من پسند ہم سفر کے ساتھ بسرکرنا چاہتے ہیں۔
کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ایک مشکل عمل ہے کہ زبان صرف حروف کی ترتیب کا نام نہیں بلکہ ثقافتی قدروں، تاریخ اور روایات کی مظہربھی ہوتی ہے۔ شاعری کا ترجمہ تو اور بھی مشکل عمل ہے کہ اس میں زبان کے ان کہے اشاروں،سماجی رویوں اوراستعاروں کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ نسیم سید نے یہ کام اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ شاعری کا مفہوم بھی برقرار رہے اور شاعرانہ مزاج بھی۔ بلاشبہ امریکہ اور کینیڈا کے حقیقی باشندوں کے یہ گیت اور نظمیں جنہیں بڑی خوبصورتی سے اردو کے قالب میں ڈھالاگیا ہے ہجرتوں کے ان عذابوں کی روداد ہیں جو ہمارے لئے نہ صرف لمحہ فکریہ بلکہ باعثِ عبرت بھی ہیں۔
ہجرتوں کے نہ ختم ہونے والے یہ سفرتو نہ جانے کب تک جاری رہیں گے۔ اب یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ ان کواپنے ہی ہم نفسوں کے لئے عذاب بنائیں یا ثواب۔ پروین شاکرنے کہا تھا:
خوشبو آزاد ہے
جنگل میں ہوا بن کے سفرکرتی ہے
نئی مٹی کا، نئی خواب زمینوں کا سفر
یہ سفر رقصِ زمیں رقص ِہوا رقصِ محبت ہے
جواب لمحہ موجود تک آپہنچا ہے…
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔