اگر امریکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پاکستان کی ہلکی پھلکی سی بلقانائزیشن کر دی جائے…مثلاً یہ کہ صوبہ سرحد کو علیحدہ کر کے ناٹو کے مقبوضہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے…توایسے میں چین محسوس کرے گا کہ اسے اس ملک کی بقا کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔ ملک کو درپیش بنیادی تضادات پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکل اختیار کر گئے ہیں: ہزاروں دیہات اور کچی آبادیاں آج بھی بجلی اور پانی سے محروم ہیں۔ لکڑی کا ہل اور ایٹمی انبار ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ یہ ہے اصل سکینڈل۔
تاریخ
لال مسجد: بہت سے سوالوں کا جواب آج تک نہیں مل سکا
لال مسجد نے ایسے بہت سے سوالوں کو جنم دیا جن کا ہنوز جواب نہیں مل سکا۔ حکومت نے جنوری میں کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا کہ جب دھرم وادی دستوں نے چھاپے مارنا شروع کئے تھے؟ ملاؤں نے حکومت کی توجہ حاصل کئے بغیر اتنا زیادہ اسلحہ کیسے جمع کر لیا؟ کیا آئی ایس آئی کو معلوم تھا کہ مسجد میں اس قدر اسلحہ موجود تھا؟ اگر ایسا تھا تو وہ خاموش کیوں رہے؟ مولانا عزیز کو رہائی دے کر خاموشی سے اپنے گاؤں لوٹ جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟
پشاور: مغل اعظم سے لیکر باچہ خان تک
پشاور میں آج جو کشےدگی اور متشدد رجحانات دکھائی دےتے ہیں، ان کا تعلق گذشتہ چندصدےوں سے کم اور پڑوسی ملک افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سے زیادہ ہے۔
نہرو وادی سوشلسٹ ہیرو جو مذہبی جنونیت کا کٹر مخالف تھا
وہ نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے سب سے پہلے، سب سے بڑے سلیبریٹی تھے بلکہ ایک ایسے (اور شائد واحد) سلیبریٹی تھے جو بیک وقت اعلی پائے کے دانشور، ’Socially Engaged‘ شہری اور کارکن تھے جو سیکولرزم، عالمی امن، سماجی انصاف پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ اس کے لئے کوشاں بھی رہے۔
دلیپ کمار، سماجی وسعتیں اور سمٹتے فاصلے!
آج کے برصغیر میں مذہبی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کے درمیان نفرتیں انتہائی حدوں کو چھو رہی ہیں لیکن اس دور کے سکرین پر ایسا کوئی ستارہ نظر نہیں آتا جو ہر سماجی اکائی میں یکساں طور پر مقبول ہو اور ان فاصلوں کم کرنے کا ذریعہ بھی ہو۔
برصغیر میں صوفی ازم: ایک تنقیدی جائزہ
خدا کے تصور کے بغیر اکثر کوئی صوفی ازم اور صوفی تھا تووہ گوتم بدھا تھا۔ جس کی تحریک ہندوستان سے مشرق بعید کے ممالک کی طرف چلی۔
عام لوگوں کی تاریخ
’مورخ ہونے کے ناطے ڈاکٹر مبارک علی کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے محض بادشاہوں کے بارے میں لکھنے کے بجائے عوام اور لوگوں پر لکھا ہے۔‘
جب فیض اور فراز جدوجہد کے دفتر تشریف لائے
ایک روز اس دفتر کی رونقیں دو بالا ہو گئیں جب معلوم ہوا کہ احمد فراز اور فیض احمد فیض یہاں تشریف لا رہے ہیں۔ یہ سال 1982ء تھا۔ وہ دونوں عظیم شاعر ہمارے سینئر ساتھی اسد مفتی کی دعوت پر آئے تھے۔ دفتر میں انہی تنگ سیڑھیوں سے چڑھتے دونوں دفتر تشریف لائے اور دیر تک محفل جمی رہی۔
مور بی بی الوداع
وہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں جیتنے والی پاکستان کی پہلی خاتون تھیں۔ بھٹو مخالف تحریک کے دوران نسیم بی بی نے بھٹو اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف شعلہ بیان تقریروں کے باعث خاصی مقبولیت حاصل کی تھی۔ بی بی اپنے مضبوط اعصاب کے باعث جانی جاتی تھیں۔ غلام احمد بلور کے مطابق 1977ء میں جب حزب اختلاف نے بھٹو پر دباؤ ڈالنے کے لئے قومی اسمبلی سے استعفے پیش کرنے کا حتمی فیصلہ کیا تو سب سے پہلے بی بی نے اپنی دونوں نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ نسیم بی بی کو چار بار صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل تھا۔ وہ تین بار عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کی صدر اور کے پی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی منتخب ہوئیں۔
اگر میرے نانا فیض احمد فیض زندہ ہوتے تو فلسطین کے لئے آواز اٹھا رہے ہوتے
میرے دل میں بھی فلسطین کے لئے ایسا ہی درد ہے۔ اگر کسی بھی شخص میں انسانیت اور ضمیر ہے تو اسے بھی یہ درد ایسے ہی شدت سے محسوس ہوتا ہو گا۔