تاریخ


ملک ہار دینے والا جرنیل (آخری قسط)

فوج کو جب اندازہ ہوا کہ اس نے اپنا کتنا بڑا نقصان کر لیا ہے توزخم خوردہ فوجی قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو نامی نجیب سیاستدان سے رابطہ کیا تاکہ بچے کھچے ملک کے معاملات کو چلایا جا سکے اور وہ انہیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔اس موقع پر فوج کی ”نسبی آزدی“ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ یہ کہ وہ کبھی پھر اقتدار کا رخ کریں گے، نا ممکن دکھائی دیتاتھا۔

ملک ہار دینے والا جرنیل (چوتھی قسط)

یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں جن کے سامنے تقسیم ہند کے دوران یا بنگال میں پڑنے والے 1943ء کے عظیم قحط کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی کم پڑ جاتی ہے۔

ملک ہار دینے والا جرنیل (تیسری قسط)

مشرقی پاکستان کے کمانڈنٹ جنرل ”ٹائیگر“ نیازی نے بڑ لگائی تھی کہ وہ ہفتوں میں سرکشی کا قلع قمع کر دیں گے مگر ان کی شیخی کسی کام نہ آئی۔ جنرل گل حسن کے لئے مشکل ہو رہا تھ کہ وہ جنرل نیازی کے لئے اپنے دل میں موجود ہتک چھپائیں۔ گل حسن کے خیال میں جنر ل نیازی زیادہ سے زیادہ ”کمپنی کمانڈر بننے کے قابل“ تھے۔ جنرل گل حسن خود بھی کوئی توپ قسم کے فوجی مدبر نہ تھے۔

آج ن م راشد کی 111 ویں سالگرہ ہے

راشد کو ’نقادوں‘ کی حیرت زدہ چیخوں کی کیا پرواہ ہو سکتی تھی۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے فنکار کے تخلیقی کام کو ’آزادی کی شرائط کے تحت‘ دیکھا۔ مختلف حلقوں کی خواہشات کے تابع ادب تخلیق کرنا انہیں بہت ناگوار تھا، چاہے اس خواہش کا اظہار ریاستی کرداروں کی طرف سے ہو یا نظریاتی پنڈتوں کی جانب سے، یہ ان کے نزدیک بہت بڑی ناانصافی تھی۔ اسی طرح جب انہوں نے اپنی موت کے بعد خود کو جلانے کا کہا تو ایسا ہی تھا جیسے انہوں نے…ایک معجزہ برپا کیا…کیوں کہ جب انسان آزادی کیلئے ساری زندگی زنجیریں توڑتا رہا ہو، تو پھر اس سلسلہ کی آخری کڑی کیوں باقی رہے؟

جوہر میر: مزاحمتی شاعری کا گم شدہ سپاہی!

مزاحمتی ادب بر صغیر کی روایتوں کا ایک اہم باب ضرور ہے لیکن انقلابی اردو شاعری میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے مقام پر ماحول کی گھٹن کو تواجاگر کیا مگر انہیں قومی سطح پر وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق ہیں۔جوہرمیر بھی مزاحمتی شاعری کا ایک گمنام سپاہی ہے جس نے سماجی انصاف کی چوکھٹ پر اپنی انفرادی خوشیوں کو ساری زندگی قربان کیا۔

خیبر پختونخوا کے خاشہ زوان جن کا نوحہ بھی نہ کیا جا سکا

ان تہذیب دشمنوں کے نزدیک زندگی، امن، ہنسی، فن، تاریخ اور طنز و مزاح ایک سنگین جْرم ہیں۔ افغان ہونے کے علاوہ فنون لطیفہ سے وابستگی اور افغانوں کے چہروں پرمسکراہٹیں لانا ہی خاشہ زوان اور دوسرے سینکڑوں فنکاروں اور گلوکاروں کا جرم تھا۔

ناٹو کی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ طالبان لوٹ آئے

اے این پی کے ذہین ترین رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ اس خطے کی تاریخ میں بد ترین عہد ضیا آمریت کے ساتھ شرع ہوا جب ملک میں ہیروئن، مغربی و موساد ایجنٹوں، اسلحے اور دولت کی بھرمار اور یلغار ہوئی تاکہ افغانستان میں موجود سویت فوجوں کو شکست دی جا سکے۔

دو عناصر پاکستان کو ٹوٹنے سے بچائیں گے

اگر امریکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پاکستان کی ہلکی پھلکی سی بلقانائزیشن کر دی جائے…مثلاً یہ کہ صوبہ سرحد کو علیحدہ کر کے ناٹو کے مقبوضہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے…توایسے میں چین محسوس کرے گا کہ اسے اس ملک کی بقا کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔ ملک کو درپیش بنیادی تضادات پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکل اختیار کر گئے ہیں: ہزاروں دیہات اور کچی آبادیاں آج بھی بجلی اور پانی سے محروم ہیں۔ لکڑی کا ہل اور ایٹمی انبار ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ یہ ہے اصل سکینڈل۔