خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
خاک ایسے جینے پر
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل
جشن بپا ہے کٹیاؤں میں اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
وجہ بے رنگی ِگل زار کہوں تو کیا ہو
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا