دل سلگ اٹھتا ہے اپنے بام و در کو دیکھ کر
شاعری
ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے
جسے دیکھو وہی چپ کا کفن پہنے ہوئے ہے
اے میرے سارے لوگو
اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
دھرتی کی سلگتی چھاتی سے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
بے وجہ گریزاں نہیں مفتیان شہر بچوں کو تاریخ پڑھانے سے
گذشتہ و فردا و حال، سب کے سب پریشان کن ہیں
خوابوں کے بیوپاری
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
مگر ظلم کے خلاف
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
روزنامہ جدوجہد اور جالب
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
لوح و قلم
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے