درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
شاعری
دھرتی کی سلگتی چھاتی سے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
بے وجہ گریزاں نہیں مفتیان شہر بچوں کو تاریخ پڑھانے سے
گذشتہ و فردا و حال، سب کے سب پریشان کن ہیں
خوابوں کے بیوپاری
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
مگر ظلم کے خلاف
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
روزنامہ جدوجہد اور جالب
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
لوح و قلم
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
تین آوازیں
جشن ہے ماتم امید کا آؤ لوگو
ضابطہ
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
بول
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے