جشن بپا ہے کٹیاؤں میں اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
شاعری
’تیرا ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں‘
وجہ بے رنگی ِگل زار کہوں تو کیا ہو
انتساب
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے
’سنا ہے جمی کارٹر آپ کا ہے پیر مولانا‘
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ملاقات
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
جاگیر
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
مہسا امینی کے نام
ہمیں بدصورت اور بد وضع دکھائی دینے کی
ایرانی طلبہ کے نام
فیض احمد فیض نے اس نظم کو ان نوجوان طالب علموں سے یکجہتی کے لئے منظوم کیا جو شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں شہید ہوئے۔