جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
شاعری
سائیں میرے کھیتوں پر بھی رُت ہریالی بھیجو ناں: عشرت آفرین کے اعزاز میں ایک محفل
عشرت کی شاعری ان مخصوص موضوعات سے زیادہ سروکار نہیں رکھتی جو آج کی شاعری کے فیشن میں شامل ہیں اور ہر نیا شاعر اپنے وجود کا جواز ثابت کرنے کے لئے ان موضوعات پر شعر کہتا ہے…دراصل اس کی شاعری کی روح اس کا ذاتی تجربہ ہے اور یہ تجربہ معاشرے کی حقیقت بھی ہے اور اس کے دل کی آواز بھی۔
’اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا‘
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
’لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں‘
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
درک اندیش
اے آبنائے رنگ و بو
”گھبرانا منع ہے“
جان بچانے والی تمام ادویات
غزل: زندگانی گنوا کے آئے ہیں
ہم دل و جاں لٹا کے آئے ہیں
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو: معین احسن جذبی کی ایک نظم
نتیجہ یہ ہے کہ اخلاقی اور انسانی قدروں کی قدرو منزلت کے بجائے معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پارہی ہے اور بھائی چارے کی جگہ ہر چیز کو تنگ نظری کی عینک سے دیکھا جارہاہے۔ شعر وادب کے گرتے ہوئے معیار پر جذبی کا تبصرہ آج بھی اسی طرح درست نظرآتا ہے جس طرح ستر سال پہلے تھا:
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو
خزاں پرستوں میں گلہائے تر کی قیمت کیا
پاکستان کا مطلب کیا روٹی کپڑا اور دوا
ملیں لٹیروں سے لے لو
ساحر لدھیانوی کی نظم، چکلے: ”مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی“
نظم چکلے ایک احتجاجی نظم ہے، جس میں ساحر نے سماج کے ان لوگوں سے احتجاج کیا ہے جو خودی کے محافظ، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں۔