امی کریب کے سفید ڈوپٹے کو اپنی آنکھ کے کونے پر ملتے ہوئے بڑبڑائے جارہی تھیں۔ ۔ ۔ پھر وہی شور برپا ہوا، اگست کے مہینے والے”اخگر“کی آواز کی گونج نے امی کی دھیمی مگر حواس باختہ بڑبڑاہٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ”تم بے قدرے لوگ اگر یہاں نہ آتے تو وہاں پتا ہے کہ کتنا برا حال ہوتا۔ وہاں تم چپڑاسی لگے ہوتے ‘سمجھے کچھ‘ چپڑاسی“۔ مجھے لگا کہ لوہے کی رگڑ سے شل ہاتھ بے جان ہورہے ہیں، میرے خالی دماغ میں چلنے والی لہریں کسی طوفان کی زد میں آکر بہت تیز ہوکر اوپر نیچے اور دائیں بائیں گھومنے لگیں۔ وہاں ”بندہ“ چپڑاسی لگ جاتا ہے !!ہیں ہیں تو پھر یہ چپڑاسی کیسے ”اِدھر“آگیا؟ کیا یہاں پر ساری چپڑاسی ”اُدھر“ کے ہیں؟ اگریہ ”اُدھر“ کے ہیں تو پھریہ ”یہاں“ کیا کررہے ہیں؟میرا سر اور تیزی سے گھوما، ہاتھ اکھڑنے لگے۔ پاﺅں‘ اس بڑے ہوئے چبوترے سے پھسل رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھاکہ اب میرا یہاں کھڑا رہنا مشکل ہے۔ ۔ ۔ اوریہ کیا؟ میں تو اُڑرہا ہوں…. ہوا میں ….چھپاکے کی آواز آتی ہے۔ ۔ اخگرصاحب تھوک میں لپٹے لفظوں کی دھول اڑاتے ہیں….تم۔ ۔ تم ”آزادی“کی قدر نہیں کرتے، شکوے کرتے ہو!ادھر ہوتے توتم چپڑاسی ہوتے!