جہاں کی جمہوریت اور حکومت حقیقی بنیادوں پر عام لوگوں اور محنت کشوں کی ہو گی اور وہاں انسان حقیقی بنیادو ں پر اک انسان ہو گا۔
نقطہ نظر
وزیر خانم: پدر سری معاشرے کا صنفی استعارہ
میرے نقطہ نظر کے مطابق شمس الرحمن کی یہ تصنیف ایک پدر سری معاشرے کا صنفی استعارہ ہے جس میں سماجی نا انصافیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک عورت کے انفرادی رویے کو غلط ثابت کیا گیا ہے جو بذات خود ان سماجی ناانصافیوں کا شکار ہے۔
ان کے قبرستان جنت کا، ہمارے جہنم کا نمونہ کیوں ہوتے ہیں؟
اگر ہمارے قبرستان اس حالت میں ہیں تو یہ نہ صرف ریاست کی ناقابل بیان ناکامی ہے جو نہ ہمارے جینے کی ذمہ داری لیتی ہے نہ مرنے کی۔
اگر ٹراٹسکی کی وفات 1940ء میں نہ ہوتی
مجھے لگ بھگ پانچ مزید سال درکار ہیں تاکہ میں اس بات کو یقینی بنا سکوں کہ میری سیاسی وراثت رائیگاں نہ جائے
ٹرمپ اور نیتن یاہو ایران کے خلاف انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں: خلیل جھشان
اولاً یہ کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امن کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے اور اسرائیل کی رجعت پسند حکومت کو آج بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر کوئی فوائدحاصل ہونے کی امید بھی نہیں ہیں جن کی بنیاد پر وہ امن کے لئے سنجیدہ ہو۔ خود نیتن یاہو بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کے لئے یہ معاہدے کرنازیادہ ضروری ہیں خصوصاً اس وقت جب عرب ملکوں نے اسرائیل سے فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہونے کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا۔
مشنری سکولوں کو قومیا کر بھٹو نے مسیحی برادری کی کمر توڑ دی
زبردست تحقیق پر مبنی اس رپورٹ میں دلائل کے ساتھ کہا گیا ہے کہ 1972ء میں چرچ کے زیر انتظام اسکولوں کو قومی ملکیت میں لینے سے پہلے سے پسمانگی کا شکار عیسائی برادری، سیاسی اور ثقافتی طور پر مزید تنہائی کا شکار ہو گئی جبکہ معاشی طور پر مزید غریب۔
بالی وڈ میں ’یونین لیڈر‘
ادھر، کیمیکل پلانٹ میں مالکان کی طرف سے مزدوروں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں لیکن یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے مزدوروں میں بھی ایک ’اشرافیہ‘ صرف اس بنا پر جنم لیتی ہے کہ وہ مالکان کی کاسہ لیس ہے۔
ہندتوا کے ثقافتی طوفان میں زویا اختر کی بغاوت
ہندی سینما میں کئی عشروں سے چلی آ رہی روایات سے بغاوت کی۔
پاکستان میں صرف 3 فیصد خواتین زمین کی مالک ہیں
خواتین کو کسی طرح سے ملکیت کے حقوق مل بھی جائیں تو بھی دنیا کے نصف ممالک میں ان کا یا تو اپنی زمین پر کنٹرول نہیں ہوتا یا پھر اس کا انتظام ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔
نیو لبرل عہد میں ریپ بھی پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے
جنسی جرائم کا شکار افراد ایک ایسے بے رحم نیو لبرل عہد کا شکار ہیں جس میں انہیں ایک طرف تو بے یقینی کا سامنا رہتا ہے تو دوسری طرف صدیوں پرانے تعصبات کا جو اُن کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔ ہر دو صورت ِحالات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریپ کو بھی پرائیویٹائز کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس کی ایک صورت یہ ہے کہ وِکٹم کو ہی موردِ الزام ٹہرا دیا جائے یا سر عام پھانسیوں کے ذریعے اسے تماشہ بنا دیا جائے۔