خبریں/تبصرے


اسلام آباد انتظامیہ نے جبری گمشدگیوں پر مبنی شارٹ فلم کی نمائش روک دی، گیلری سیل

’ٹی ایف ٹی‘ کے مطابق چیئر پرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ ان کی تنظیم بدھ کو اسلام آباد میں عکس نروانا آرٹ گیلری میں جبری گمشدگیوں پر مبنی فلم کی سکریننگ اور کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کیلئے جا رہی تھیں، تاہم انہیں گیلری پہنچنے پر معلوم ہوا کہ گیلری کو سیل کر دیا گیا ہے اور داخلی دروازے پر سکیورٹی فورسز کی گاڑی موجود تھی۔

کل ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ ہونگے

طلبہ یکجہتی مارچ کا بنیادی مطالبہ طلبہ یونین کی بحالی ہے، جبکہ دیگر مطالبات میں فیسوں میں اضافہ واپس لینا، تعلیمی اداروں کی نجکاری کا خاتمہ اور تعلیم کی مفت فراہمی، تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے 5 فیصد تک بڑھانے سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں

فٹ بال ورلڈ کپ: مزدوروں کی حالت زار رپورٹ کرنیوالے صحافی گرفتار

ایکلینڈ اور غوربانی 14 نومبر سے قطر میں تھے اور 2022ء کے ورلڈ کپ کے منتظمین کے سابق کمیونیکیشن ڈائریکٹر عبداللہ سے ملنے والے تھے، جنہوں نے قطری حکومت پر عوامی سطح پر تنقید کی تھی۔ تاہم عبداللہ کو انٹرویو سے چند گھنٹے قبل ہی گرفتار کر لیا گیا، انہیں بدعنوانی کے الزام میں 5 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔

جبری گمشدگیاں بند کی جائیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کے قائمقام محقق ریحاب ماہور کے مطابق اپنے پیاروں کو کھونے اور ان کے ٹھکانے یا حفاظت کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے دکھ اور غم کے ساتھ ساتھ یہ خاندان خرابی صحت اور مالی مسائل سمیت دیگر طویل المدتی اثرات کو بھی برداشت کرتے ہیں۔

’1 آڈیو اور 2 ویڈیوز ابھی اور آئیں گی، ان میں بھی جسٹس ثاقب نثار کا ذکر ہو گا‘

مذکورہ آڈیو سے متعلق امریکہ کی ایک معروف فورانزک لیبارٹری کی رپورٹ بھی شائع کی گئی ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس آڈیو میں گفتگو کرنے والا شخص سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار ہی ہیں اور مذکورہ آڈیو میں کسی طرح کی ٹمپرنگ اور فیبریکیشن نہیں کی گئی ہے۔

طالبان نے ایسے ٹیلی ڈراموں پر پابندی لگا دی جن میں خواتین ہوں گی

طالبان نے ایک اور حکم نامے میں ایسے ڈراموں اور پروگراموں پر بھی پابندی لگا دی ہے جن میں خواتین اداکارائیں شامل ہوں۔ تفریحی صنعت کئی دہائیوں کے بعد افغانستان کے روایتی معاشرے میں قدم جما رہی تھی۔ ہر سال نئی خواتین گلوکاروں کو متعارف کرایا جا رہا تھا، ماڈلنگ ایجنسیاں بنائی گئیں اور مقامی ٹیلی ویژن چینل ڈرامہ پروڈکشن میں سرمایہ کاری کر رہے تھے۔ اگرچہ زیادہ تر ٹیلی ویژن چینل ترکی اور بھارت کے ڈرامے نشر کر رہے تھے لیکن مقامی تفریحی صنعت مقابلے کے باوجود اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی تھی۔