”اردو غزل کی روایت میں شکیب کا مقام منفرد ہے۔ اس کے دور میں فیض اور ناصر کاظمی خوبصورت غزلیں کہہ رہے تھے مگر وہ شکیب ہی تھا جس نے غزل کو موضوع و اظہار کے حوالے سے ایک متوازن جدت کا موڑ دیا۔ یوں وہ جدید غزل نگاروں کا سالار ہے۔“
شاعری
میں کبھی بھی میں سے نہیں ملا
میں نے ساری بوتل پی کر
’حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا‘
رنگ رکھنا یہی اپنا، اسی صورت لکھنا!
ڈانس
جب تک تم رقص کر سکتے ہو رقص کرو، زمین کے گرد رقص کرو
ترک شاعر ناظم حکمت کے افکار
ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
’رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا‘
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
’سوداگران دین کی سوداگری کی خیر‘
فاقہ کشوں کے خون میں ہے جوش انتقام
شاطرانہ چال
غربت، اقلیتوں کے مسائل اور عام لوگوں کی زندگی ان کی شاعری اور تصانیف کے موضوعات تھے۔
عبید اللہ علیم: ایک نظم، ایک غزل
مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں