اداریہ

[molongui_author_box]

مسئلے کی جڑ کرپشن نہیں، طاقت ہے

تحریک انصاف جیسی جماعتوں نے یہ سامراجی اور آمرانہ بیانیہ عام کیا کہ پاکستان میں ہر مسئلے کی جڑ بدعنوانی ہے (تا کہ سرمایہ داری، طبقاتی اونچ نیچ اور قومی جبر کی بات نہ ہو سکے)۔ عمران خان کا بیانیہ یہ تھاکہ اگر پارسا لوگ حکومت میں آ جائیں تو بدعنوانی ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا یہ بیانیہ پچھلے دو سال میں دھڑام سے زمین پر آ چکا۔

بلاسفیمی کے نام پر فرقہ واریت

’روزنامہ جدوجہد‘ کی ملک بھر کے تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ دوسروں کے عقیدے کا احترام کریں۔ بطور شہری ہمیں مذہبی رواداری کی شاندار مثالیں قائم کرنی چاہئیں۔ ایسی سیاسی جماعتوں اور گروہوں سے ہوشیار رہنا ہو گا جو فرقہ واریت اور مذہبی جنون پھیلا کر دراصل اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔

عاصم باجوہ کو بچاتے ہوئے عمران خان خود ڈوب جائیں گے!

ہم نے چند دن پہلے ایک ادارتی نوٹ میں کہا تھا کہ احمد نورانی کی رپورٹ پر حکومت کے لئے خاموش رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ جنرل عاصم کو خود یہ خاموشی توڑنی پڑی۔ موقع پرست حزب اختلاف کو بھی لب کشائی کرنی پڑی۔ تردید کے بہانے ہی سہی، میڈیا کو بھی رپورٹ کرنا پڑا۔ تضاد اتنا کھلا ہے کہ روایتی جوڑ توڑ، زور زبردستی، سنسر اور ہیرا پھیری سے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔

پاکستان کے لئے یہ واٹر گیٹ والا لمحہ ہے

پاکستان تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی بدعنوانی کا خاتمہ، شفافیت اور انصاف تھا۔ اب اگر عمران خان کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی چلی جائے گی۔ پہلے ہی جہانگیر ترین کی لوٹ مار نے ان کے نعروں کا کھوکھلا پن ظاہر کر دیا ہوا ہے۔

توہین مذہب کے نام پر تشدد کیوں بڑھ رہا ہے؟ محنت کش طبقہ کیسے متاثر ہوتا ہے؟

ریاست اور حکمران طبقہ بوقت ِضرورت اور حسبِ ضرورت خود توہین مذہب کا کارڈ استعمال کرتے آئے ہیں۔ پچھلے چند سالوں کا ہی جائزہ لیجئے۔ گورنر سلمان تاثیر سے مسلم لیگ نواز خاصی تنگ تھی۔ جب گورنر تاثیر اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ہم نے دیکھا کہ آرمی چیف اور صدر زرداری سے لے کر وزیر اعلیٰ شہباز شریف تک، کوئی بھی جنازے پر موجود نہیں تھا۔

نصاب نہیں یکساں نظام تعلیم چاہئے: مدرسے اور پرائیویٹ سکول قومی ملکیت میں لئے جائیں

طبقاتی نظام کا خاتمہ کئے بغیر حقیقی معنوں میں غیر طبقاتی نظام تعلیم ممکن نہیں۔ ایک غیر طبقاتی نظام تعلیم کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی مگر محنت کش اور سفید پوش طبقے سے پچھلی چار دہائیوں میں وہ حقوق بھی چھین لئے گئے ہیں جو انہیں موجودہ گلے سڑے نظام میں حاصل تھے۔ ان میں سے ایک حق مفت تعلیم کا تھا۔

مطیع اللہ جان کی ’گمشدگی‘ اور رہائی

یہاں حکمران طبقہ کسی قسم کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ سلیم شہزاد، عمر چیمہ، حامد میر، احمد نورانی اور اب مطیع اللہ جان۔ جو صحافی سرکاری احکامات سے رو گردانی کرتا ہے، اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور قانون بے بس دکھائی دیتا ہے۔

قصور تا خیر پور: عبرتناک سزا نہیں مثالی اقدامات بچوں کا جنسی استحصال روک سکتے ہیں

گویا عبرتناک سزا سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ پڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ عبرتناک سزائیں جرم کو مزید متشدد بنا دیتی ہیں۔ سزا ملنی چاہئے۔ ضرور ملنی چاہئے مگر سزا سے کم از کم بچوں کے جنسی استحصال کو روکنا نا ممکن ہے۔ اس لئے اب عبرت ناک سزا کا راگ الاپنا بند ہونا چاہئے اور ایک نئی بحث شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئے اقدامات کئے جا سکیں۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ اور بلوچستان کا زخم

بلوچستان میں بہت سے سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ تاریخی طور پر معاشی ناانصافیوں نے جہاں صوبے کو پسماندہ رکھا، وہاں وقت کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک بڑا انسانی المیہ بن گیا ہے۔ یہ سرکاری بیانیہ کہ پسماندگی کی وجہ بلوچ سردار ہیں اور دہشت گردی کی وجہ را…یہ بیانیہ بلوچستان سے باہر تو کچھ پرتوں کو متاثر کر سکتا ہے مگر بلوچستان میں، درست طور پر، اس بیانئے پر کوئی یقین نہیں کرتا۔

عزیز ہم وطنو! پاکستان میں اکیڈیمک مارشل لا نافذ کیا جا رہا ہے

اکیڈیمکس حکمران طبقے کی کاسہ لیسی کرتے تو نظر آتے ہیں مگر حکمران طبقے سے کم ہی ٹکر لیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں اگر اکیڈیمکس بطور پبلک دانشور ترقی پسندانہ کردار ادا کرتے نظر آئیں تو یہ اور بھی مشکل کام تصور کیا جاتا ہے۔