پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حال ہی میں نافذ کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے خلاف آزادی پسند اور ترقی پسند جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ مختلف اضلاع اور تحصیل صدر مقامات پر پولیس نے آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے پر ایک درجن سے زائد مقدمات قائم کر لیے ہیں۔ کوٹلی، راولاکوٹ اور ہجیرہ میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مزید گرفتاریوں کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب احتجاج کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔
پاکستان
ادب، زنداں خانوں کی اصلاحات اور احد چیمہ
ادب اور بندی خانوں کا تعلق ایک دوسرے سے گہرا رہا ہے۔ بڑے بڑے ادباء نے جیل میں ایامِ اسیری کے دوران قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی ا ور وسیع القلبی سے جھیلتے ہوئے لوح قلم کی پرورش کی ہے۔ ان میں پیش آنے والی مشکلات، ذہنی و نفسیاتی کرب، پل پل تنہائی کے ڈستے اژدہوں اور جیل میں قانون کی آڑ میں بے قانونی کا تذکرہ کیا ہے۔ ادبیاتِ عالم میں عقوبت خانے کو جہاں تنہائی کی کوکھ سے نکلتی ہوئی تخلیق کا استعارہ قرار دیا گیا ہے،وہیں اس کی تہہ میں جبر و بربریت کی سنگ باری کا درد ناک ذکر بھی پایا جاتاہے۔ یہ معاشروں میں مطلق کنجِ تنہائی نہیں بلکہ ایسے ٹکسال کی مانند ہیں جہاں حوالاتی اور ملزم کو سلطان المجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ سوقیانہ سلوک روارکھا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی ’عمران خان رہائی‘ ریلی ریاستی جبر کا شکار
یہ تحریک درحقیقت سرمایہ داروں کی ریاست میں اپنا حصہ لینے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اس میں اگرچہ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ہر بار مذمت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تاہم ان کے سیاسی بیانیے کا ہم حصہ نہیں بن سکتے۔تحریک انصاف جس قسم کا سیاسی بیانیہ تعمیر کر رہی ہے، وہ ہمارا بیانیہ نہیں ہے۔ انہوں نے ماضی میں جو کچھ کیا ہے وہ آج کے سیاسی بیانیے کے الٹ ہے۔
کرم میں خون کی ہولی: محافظ ہی قاتل ہوں تو حفاظت کون کرے؟
افغان جنگ کے بعد اس خونریزی کے کھیل میں محافظ ہی قاتلوں کا کردار بھی ادا کرتے آئے ہیں۔ جب صورتحال اس نہج پر پہنچ جائے تو پر شہریوں کی حفاظت کا ذمہ انہیں خود ہی لینا پڑتا ہے۔ جب شہری اپنی حفاظت کا ذمہ خود لینے کی کوشش کرتے ہیں تو خونریزی میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ کے ساتھ ایک کاروبار بھی جڑ چکا ہے اور یہ ریاست کے اندر ایک نظریاتی جنگ کی صورت بھی اختیار کر چکی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران کے مابین فرقہ وارانہ تقسیم بھی اس جنگ کا اہم حصہ بنتی جا رہی ہے۔
امن و امان کے لیے پریشان اقتدار پر سامراجی تسلط کے اوزار
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دو وزراء نے حال ہی میں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے حق میں خصوصی اور ہنگامی ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے اس آرڈیننس کو امن و امان کے لیے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کو شرپسند اور ذاتی مفادات کی وجہ سے امن و امان تباہ کرنے والے عناصر قرار دیا ہے۔ راولاکوٹ میں پر امن مظاہرین پر پولیس تشدد کی تمام تر ذمہ داری بھی مظاہرین پرعائد کرتے ہوئے اسے خطے کا ماحول خراب کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ تمام سیاسی جماعتوں (اسمبلی میں موجود) کا متفقہ آرڈیننس ہے اور جلد اس کو اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔
جموں کشمیر: عوامی احتجاج کا موجب بننے والا صدارتی آرڈیننس کیا ہے؟
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی اجتماعات کے انعقاد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ 29اکتوبر کو جاری کیے گئے اس صدارتی آرڈیننس میں عوامی اجتماعات، جلسے، جلوس وغیرہ منعقد کرنے کا عمل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق کسی فوری مطالبے پر احتجاج کرنے پر تقریباً پابندی ہی عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ احتجاج کے لیے 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینا لازمی ہوگا اور مطالبات بھی 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو لکھ کر دینا ہونگے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسی شرائط ہیں، جن کو کوئی بھی مظلوم انسان یا پھر وہ شخص جس کا حق چھینا گیا ہو، اس کے لیے پورا کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔
نیوزی لینڈ: رکن اسمبلی ہانا راہتی کا انوکھا احتجاج
سنئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے سیکرٹری جنرل قمر الزماں خان کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان ’نیوزی لینڈ: رکنی اسمبلی ہانا راہتی کا انوکھا احتجاج‘
عوامی طاقت کو توڑنے کے لیے فسطائی ہتھکنڈوں کا استعمال
دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی ریاستی ادارے کر رہے ہیں۔یہ بات آج بچے بچے کو معلوم ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد میں مزاحمتی تحریکوں میں ’یہ جو دہشتگردی ہے،اس کے پیچھے وردی ہے‘ جیسا نعرہ سب سے مقبول ہے۔کالعدم جیش محمد، جماعت الدعوۃاور سپاہ صحابہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے مراکز پنجاب سمیت ملک بھر میں قائم ہیں۔فوجی آپریشن پختون خوا اور بلوچستان میں کیے جا رہے ہیں۔اس مرتبہ ریاست کو فوجی آپریشن کے خلاف پختونخوا میں شدید عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔پختونخوا کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد نے فوجی آپریشن اور طالبان کے خلاف احتجاج کیے ہیں۔
کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر مزارعین اور کسانوں کی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ
پاکستان بننے کے بعد ان کی زمینوں کو پنجاب سیڈ کارپوریشن اور آرمی کے کنٹرول میں دیا گیا تھا اور وہ تب سے مزارعین کو لوٹا جا رہا ہے۔ انگریزوں سے آزادی کے نام پر پاکستان تو بنا تھا لیکن وہ صرف چند اشرافیہ، فوج اور جاگیرداروں کے لیے تھا۔ مزارعین، کسان، مزدور اور عام لوگ ابھی تک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب بھی حکومت، فوج اور بیورکریسی کا دل کرتا ہے مزارعین اور کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ہاریوں کے مسائل
جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو ہاریوں کو زمیندار فصل کی تیاری پر ہونے والے لاگت کا خرچہ نکال کر فصل کی پیداوار کا آدھا حصہ دیتے ہیں، جو آخر میں ان کے لیے نہ ہونے کے برابر بچتا ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ سے سالوں ملک کے اندر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہاریوں کو کچھ بھی نہیں بچ رہا ہے، الٹا وہ قرض دار ہوتے جارہے ہیں۔