تاریخ


جموں کشمیر پر قبائلی حملہ: 74 سالہ ’زخموں‘ سے نجات خود انحصاری کی متقاضی!

رواں سال 22 اکتوبر کو جموں کشمیر پر قبضے کی غرض سے پاکستانی ریاست کی ایما پر ہونے والے منظم قبائلی حملے کو 74 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ابھی تک اس واقع کو متعدد مرتبہ کریدہ جا چکا ہے اور ہر مرتبہ وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان ان واقعات کی ہولناکی میں اضافہ ہی کرتی آئی ہے۔

مبارک قاضی: بلوچستان کا سربکف شاعر

بعض شاعروں اور ادبی شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ واقعی ان سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کے کام کے ذریعے ملیں، کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بہت مایوس کن ہو سکتے ہیں، یا ان کا کام اور ذاتی زندگی ایک دوسرے سے متصادم ہو سکے ہیں۔ ایسے ہی ایک بلوچ شاعر مبارک قاضی تھے،جو مزاحمتی اور عوامی شاعر تھے۔

سپارٹیکس: یادگار ہالی وڈ فلم بھی، کیمونسٹ مزاحمت کا استعارہ بھی

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کر رہا تھا۔ نوے کی دہائی نصف سے زائد گزر چکی تھی۔ میرے ہم جماعت اوردوست مسعود کو جب پتہ چلا کہ میں نے ’سپارٹیکس‘ نہیں پڑھا تو چند روز بعد انہوں نے مجھے یہ ناول پڑھنے کے لئے دیا۔ مزاحمت، بغاوت اور بہادی کا سبق دیتا ہوا یہ ناول جب تک میں نے ختم نہیں کر لیا، میں سویا نہیں۔ میں نے ایسا ناول اس سے قبل پہلے نہیں پڑھا تھا۔ ان دنوں میں ’جدوجہد گروپ‘ کا رکن بن چکا تھا اور جو بھی نئی کتاب پڑھتا، اپنے ساتھیوں سے اُس کا ذکر کرتا۔ گروپ کے مٹھی بھر تمام ساتھیوں نے یہ ناول پڑھ رکھا تھا۔

50 سال پہلے: چلی کی کمیونسٹ حکومت کا 9/11، جو امریکہ نے کروایا

11 ستمبر 1973ء کو لاطینی امریکی ملک ’چلی‘ میں کمیونسٹ رہنما سلواڈور ایلندے کی منتخب سوشلسٹ حکومت کا تختہ فوجی بغاوت کے ذریعے الٹ دیا گیا تھا۔ چلی میں جمہوری دور کے آغاز کے بعد یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جنرل آگسٹو پنوشے نے امریکی حمایت سے نیولبرل پالیسیوں کے نفاذ کا آغاز کیا تھا۔ یہ نائن الیون صرف اسی وجہ سے مشہور نہیں ہے کہ اقتدار پر فوجی قبضہ کروایا گیا، بلکہ اس فوجی قبضے اور امریکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں انقلابیوں کا قتل عام کیا گیا اور ظلم و جبر کی ایک بھیانک تاریخ مرتب کی گئی۔ یوں یہ نائن الیون 2001ء کے نائن الیون سے زیادہ دہشت ناک، خوانخوار اور بربریت پر مبنی تھا۔

مینڈل کے سو سال

ارنسٹ مینڈل ایک بین الاقوامیت پسند اور انقلابی کارکن تھے، جنہوں نے زندگی بھر سوچ اور عمل کو یکجا کیا۔ فکری لحاظ سے ان کے وسیع نظریاتی کام، معاشی اور سیاسی صورت حال پر ان کے بہت سے تجزیوں اور بے شمار مضامین نے کارکنوں، طلبہ، محققین، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور سماجی و سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں کی ایک بڑی نسل کو متاثر کیا۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا، وہ تنظیمیں تعمیر کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل اور مختلف ملکوں میں اس کے سیکشنزکی تعمیر کے لیے اتنی ہی توانائی صرف کی جتنی نظریاتی اور سیاسی کام کی تیاری کے لیے کی۔ مینڈل 20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے بین الاقوامی قد کے تقریباً 20 مارکسی دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا شمار ان چند افراد میں ہوتا ہے جو تخلیقی اور اختراعی فکری تصریح کے ساتھ عمل کو یکجا کرنے میں کامیاب رہے۔

مینڈل کے سو سال: ’مارکسٹ اکنامک تھیوری‘ اور ’لیٹ کیپٹلزم‘

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘مارکسی معیشت کے ان مقالوں کا متبادل فراہم کرتی ہے، جو اس زمانے کے مارکسسٹ یا کمیونسٹ مفکرین کے درمیان غالب تھے۔ یہ مقالے سیاسی معاشیات پر مضامین اور درسی کتابیں تھیں، جو سوویت یونین سے آئی تھیں، یا بیجنگ میں تیار کی گئی تھیں۔ وہ نظریہ اور طریقہ کار کے لحاظ سے کٹر اور ناقص فکر پر مبنی تھیں۔’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘1962-1963میں فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی۔

مینڈل کے سو سال: ایک بلجئین انقلابی کی یادیں

ارنسٹ مینڈل ایک بین الاقوامیت پسند اور انقلابی کارکن تھے، جنہوں نے زندگی بھر سوچ اور عمل کو یکجا کیا۔ فکری لحاظ سے ان کے وسیع نظریاتی کام، معاشی اور سیاسی صورت حال پر ان کے بہت سے تجزیوں اور بے شمار مضامین نے کارکنوں، طلبہ، محققین، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور سماجی و سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں کی ایک بڑی نسل کو متاثر کیا۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا، وہ تنظیمیں تعمیر کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل اور مختلف ملکوں میں اس کے سیکشنزکی تعمیر کے لیے اتنی ہی توانائی صرف کی جتنی نظریاتی اور سیاسی کام کی تیاری کے لیے کی۔ مینڈل 20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے بین الاقوامی قد کے تقریباً 20 مارکسی دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا شمار ان چند افراد میں ہوتا ہے جو تخلیقی اور اختراعی فکری تصریح کے ساتھ عمل کو یکجا کرنے میں کامیاب رہے۔

ممتاز صحافی حفیظ ظفر وفات پا گئے

انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز ’پاکستان ٹائمز‘ سے کیا (ان کے والد بھی پاکستان ٹائمز سے وابستہ تھے)، پھر وہ روزنامہ ’دی نیشن‘سے وابستہ ہوگئے۔ لگ بھگ بیس سالہ اس وابستگی کے بعد وہ ’دی نیوز‘سے منسلک ہو گئے۔ آخری دس سال وہ گاہے بگاہے بے روزگار رہے یا بے روزگاری مسلسل ایک خوف کا سایہ بن کر اُن کا پیچھا کرتی رہی۔ آخری چند سال، ان کو صحت کے مسائل کا سامنا تھا۔