جو روٹی کو گھسیٹ گھسیٹ کر
شاعری
غزل: کبھی سلام کبھی آپ کے پیام آئے
تری نظرکے سمندر سے تشنہ کام آئے
غزل: اپنے ہی لوگ اپنے نگر اجنبی لگے!
واپس گئے تو گھر کی ہر اک شے نئی لگے
غزل: ہونٹ پر دعا ہو گی ہاتھ میں سبو ہو گا
وقت کے سنگھاسن پر کون خوبرو ہو گا
5 جولائی مردہ باد: ’ہم اپنے خواب کیوں بیچیں‘
ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے
غزل: رنگ ہو، نور ہو، توقیر تو ہو
ترے قابل تری تصویر تو ہو
غزل: دامن زیست سنوارا جائے
کوئی مہتاب اتارا جائے
فلسطینی بچے کے لیے لوری
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
فلسطین کے بیٹے
خون ارزاں
اس پھیلتی خوشبو کو گلابوں ہی میں رکھنا!
اک کلمہ حق ہی مری میراث ہے یارو