اُجلی اُجلی سڑکوں پر اِک گرد بھری حیرانی میں
شاعری
زمیں زادے کہاں ہیں؟
مگر تم دیکھنا اک دن
معمار
سینہِ سنگ سے جھرنوں کی صدا پھوٹتی ہے
دائرے اور آسمان!
اسپ تازہ کی طرح
اب جدائی کے سفرآئیں گے
صبح آئے گی، ا سے آنا ہے
چلو چلیں، بڑھے چلیں
تو کس لئے ہوں خیمہ زن
قابلِ رحم قوم
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
اپنے بے نام اندھیروں کو سنبھالے رکھوں
روشنی کچھ تو میسر ہو درِ ز نداں میں
چارہ گرو کچھ تو کرو! عورتوں کا عالمی دن
رشتہِ جاں توڑ چکے
شاہکار
کے حصار سے گزرتی