اپنے اس پیغام کو’انسانیت کا پرانا نغمہ‘ قرار دیتے ہوئے وہ کہہ رہی ہیں کہ غربت، ماحولیاتی آلودگی اور طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔
شاعری
دھیرے چلو!
کچے گھروندوں کے بکھرتے کھنڈر
سیلاب زدگان کے لئے فیض احمد فیض کی ایک نظم
اَج کیکن ویہڑیوں ٹوریا
’صبحوں کا ہنسنا بھی لہو، راتوں کا رونا بھی لہو‘
میری آنکھوں میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
داخلی جلا وطنی!
کیا آپ بھی کسی ایسی ہی جگہ جلا وطنی کے دن تو پورے نہیں کر رہے؟
’اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن: اپنے عیبوں کو مت ڈھانک میرے وطن‘
تیری بربادیوں کا تجھے واسطہ
چلئے چھپا کے غم بھی زر و مال کی طرح: شکیب جلالی
”اردو غزل کی روایت میں شکیب کا مقام منفرد ہے۔ اس کے دور میں فیض اور ناصر کاظمی خوبصورت غزلیں کہہ رہے تھے مگر وہ شکیب ہی تھا جس نے غزل کو موضوع و اظہار کے حوالے سے ایک متوازن جدت کا موڑ دیا۔ یوں وہ جدید غزل نگاروں کا سالار ہے۔“
میں کبھی بھی میں سے نہیں ملا
میں نے ساری بوتل پی کر
’حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا‘
رنگ رکھنا یہی اپنا، اسی صورت لکھنا!
ڈانس
جب تک تم رقص کر سکتے ہو رقص کرو، زمین کے گرد رقص کرو