فن و ثقافت


نُور جہاں: پاکستانی ثقافت کی سریلی شناخت

منٹو اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ”نور جہاں کے کئی عاشق ہوں گے۔ میں ایسے کئی باورچیوں کو جانتا ہوں جو چولہے کے پاس نور جہاں کی تصویریں لگا کر اپنے صاحبوں اور میم صاحبوں کاکھانا پکاتے ہیں۔“

ابسن کے ڈرامے اور پاکستانی سماج

معلوم نہیں کہ ابسن نے 142 سال پہلے فیصلہ سازی کرنے والوں کے بارے یہ ڈرامہ لکھتے ہوئے سوچا تھا کہ کبھی اردو پڑھنے والے بھی اُن کے ڈرامے سے لُطف اندوز ہونگے۔ اس ڈرامے کا اردو ترجمہ ناروے کے پاکستانی نژاد صحافی، دستاویزی فلم میکر اور مصنف عطا انصاری نے بڑی مہارت سے کیا ہے۔

ناروے کا کلاسیکی ادب اردو میں

ناروے کے سرکردہ ناول نگاروں میں سے ایک کھنیوت ہامسن ہیں۔ انہیں 1920 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اُن کے کئی ناولوں کو اسٹیج کے لیے ڈرامائی شکل دی گئی اور سنیما کی سکرین پر بھی پیش کیا گیا۔ وہ ناروے کے سب سے زیادہ فلمائے گئے مصنفین میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ متنازعہ بھی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ 1930 کی دہائی میں ہٹلرکے جرمنی کے حامی تھے اور ناروے پر جرمن قبضے کی حمایت کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے ناولوں کی ساکھ تباہ نہیں ہوئی اور نارویجن ادب میں وہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والوں میں سے ایک رہے ہیں۔

افسانچہ: چھوٹا/بڑا

خیر تو وہ گھر والے ٹھیک ٹھیک رہتے تھے۔ تب تک جب تک وہ ایک دوسرے کو انسان سمجھتے تھے۔ بڑا پیارا ماحول رہتا تھا۔ سب ایک دوسرے کی خوشی ڈھونڈتے، ایک دوسرے کا دکھ دور کرتے، ایک دوسرے سے محبت کرتے ایک دوسرے کا احساس کرتے۔ان میں کوئی بڑا،چھوٹا،مرد اور عورت نہیں تھا سب انسان تھے۔

غزہ، نسل کشی اور احتجاج سے عاری اے آئی آرٹ

مزید برآں، یہ استھیٹک تصاویر زیادہ تر اس لئے پسند کی جاتی ہیں کیونکہ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی سنسرشپ کے الزامات سے آسانی سے بچ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ اور بھی خطرناک مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ خود تصاویر سنسرشپ کا مجسمہ ہوتی ہیں۔
اے آئی سے تیار کردہ آرٹ کی منافقت بھی ناقابل تردید ہے کیونکہ یہ کسی کو بھی ایسی چیز تیار کرنے سے روکتی ہے جو ایک مخصوص معیار پر پورا نہیں اترتی جس کا مطلب ایک ضمنی کاروباری مقصد ہوتا ہے۔
نسل کشی کے دوران آرٹ کو استھیٹک بنا کر، اس کو تجارتی بنا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی انتہا ہے اور جب عالمی برادری فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑی ہونے کی کوشش کرتی ہے، تو انہیں چاہیے کہ اپنے متعلقہ احتجاج کے ہر چھوٹے سے چھوٹے علامت کو احتیاط سے شامل کریں۔

اردو ڈرامہ اور عصری مسائل

جب سماج کی بنیاد یعنی معاشی نظام متروک ہو جائیں،تو وہ محض معیشت میں ہی اپنا اظہار نہیں کرتے، بل کہ سماج کا ہر ایک ادارہ تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ تاریخ کا دھارا گویا روک سا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتیہیں۔ رشتوں کا تقدس اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ سماج میں ایک بے گانگی جنم لیتی ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ یہ انسانوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ ان کے پاس انفرادی بقا کے انتخاب کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا، اور انفرادی کام یابی ہی سب سے بڑا مقصد حیات بن جاتی ہے۔ چاہے اس کی قیمت اپنوں کے خون سے ہی کیوں نا چکانی پڑے۔

کمرشل فلموں میں تشدد اور سیکس کی بھرمار کیوں ہوتی ہے؟

جب دسویں جماعت میں غالب کو پڑھایا جاتا ہے توعام طور پر اکثر طالب علم غالب کو بورنگ، مشکل،دقیق، اور نا قابل فہم سمجھ کر یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ غالب کو اتنا بڑا شاعر کیوں مانا جاتا ہے۔ شیکسپئیر سے گوئٹے تک، ہر بڑے نام بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکول کے طالب علم کو یہ سب بڑے ادیب عام طور پربے معنی سے لگیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا taste ابھی cultivate نہیں ہوا، ادبی ذوق ابھی پروان نہیں چڑھا۔ ادبی ذوق تب ہی پروان چڑھے گا جب مطالعہ وسیع ہو گا۔ زبان، فلسفے،تاریخ اور سیاست کے علاوہ حالات حاظرہ پر گہری نظر ہو گی۔ گویا سیاق و سباق پر دسترس ہو گی۔

سندھ نامہ (دوسرا حصہ): روپلو کوہلی، کارونجھر، مزاحمت

میں نے اس سے قبل، روپلو کوہلی بارے کبھی نہیں سنا تھا۔ایسے کرداوروں بارے سکول کی کتابوں میں پڑھایا جانا چاہئے مگر ان کے نام سے جانکاری کے لئے بھی دو ہزار میل کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ روپلو کوہلی نے انگریز سامراج کے خلاف،تھر پارکر کے خطے میں بارہ سال سے بھی زیادہ عرصہ فوجی مزاحمت کی قیادت کی۔ ہوا یوں تھا کہ حیدر آباد اور خیرپور میں تو فوجی مزاحمت پر انگریز سامراج نے جلد ہی قابو پا لیا لیکن تھر پارکر نے کئی سال مزاحمت کی۔ آخر کار روپلو کوہلی کو گرفتار کر لیا گیا۔انہیں پھانسی دی گئی۔ فخرکی بات ہے کہ کلونیل ازم کے خلاف مزاحمت کرنے والے اس مقامی ہیرو کے نام پر ایک گیسٹ ہاوس قائم کیا گیا ہے۔

یوگا

آپ بھی یوگ کے آسن سیکھئے۔ اس پر عمل کیجئے۔ پورے ایک سو بیس آسنوں کا حال میری کتاب’یوگ! کیوں اور کیسے‘ میں درج ہے۔ قیمت پانچ روپے۔ ملنے کا پتہ۔ آوارہ یوگی۔ پوسٹ بکس نمبر420شکار پور۔ سندھ۔