نقطہ نظر


سامراجیت: دو چیزیں ایک ساتھ بری ہو سکتی ہیں!

یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ غریب ملکوں سے امیر ملکوں کی طرف قدر کی منتقلی ایک غیر مساوی تبادلے کا نتیجہ ہے اور یہ سرمایہ دارانہ سیاسی معیشت کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام صرف ’کمپراڈور‘ (خارجی آقاؤں کی وفادار) قسم کی حکومتوں پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ بائیں بازو کی حکومتوں کو بھی اسی شکنجے میں رکھتا ہے۔ ترقی پذیر ملک غریب اس لیے رہتے ہیں کیونکہ وہ کم پیداوار والی، بیرونی انحصار پر مبنی معیشتوں کے حامل ہیں، اور اکثر اپنے وسائل خود نکالنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ انہیں اس مقصد کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو بلانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے اور ریکوڈک اس کی ایک واضح مثال ہے۔

فرنکنسٹائن مونسٹرز: اپنی ہی تخلیق کے گرداب میں پھنسے خالق!

اب وقت آگیا ہے کہ نہ صرف معاشرہ من حیث المجموعی مذہب کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی بجائے اس عفریت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے، بلکہ والدین انکار کر دیں کہ ان کے بچے اب مذہب کے نام پر ریاست کے سامراجی، تذویراتی اور پراکسی مقاصد کا ایندھن نہیں بنیں گے۔گڈ اور بیڈ کی تفریق اور تقسیم کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر تربیت گاہ اور بھرتی مرکز کو ختم کیا جائے گا اور مذہبی تعلیم کے نام پر انتہاء پسندی اور شدت پسندی کو پروان چڑھانے کے ہر ذریعے کا خاتمہ کیا جائے گا، اور جدید سائنسی تعلیم کی ہر سطح پر مفت فراہمی کے لیے آگے بڑھا جائے گا۔ جب تک اگر مگر کا سلسلہ موجود رہا، گڈ اور بیڈ کی تفریق رہی، یاجب تک معاشرے میں پسماندہ پرتیں موجود ہیں اور جب تک اندھیری طاقتیں موجود ہیں، تب تک موت کا یہ کھیل باقی رہے گا۔

’چھاوا‘: تاریخ کو مسخ کرنے، گہرائیوں اور پیچیدگی کو نظر انداز کرنے کی ایک اور مثال!

بالی ووڈ کی تازہ ترین بلاک بسٹر فلم ’چھاوا‘ دیکھنے کے بعدگجرات میں ایک فلم بین نے غصے میں آکر سینما کی اسکرین پھاڑ دی۔ یہ غصہ اورنگزیب کی جانگ سے سمبھاجی پر کیے گئے مظالم کو دیکھ کر ابھرا۔ فلم دیکھنے کے بعد بچوں سمیت کئی ناظرین کے رونے اور نعرے لگانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ کوئی بھی فلم جو اپنے کل136منٹ کے دورانیے میں سے آخری منٹ محض تشدد کی بے رحمانہ منظر کشی پر صرفکرے، اس کے جمالیاتی ذوق پر پہلے ہی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔

مہرنگ بلوچ: جرأت کا استعارہ

ہم اکثر تاریخ کی کتابوں میں مزاحمت کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جو اپنے وقت کی علامت بن گئے اور مزاحمت کے پیمانے کی وجہ سے یادداشتوں میں نقش ہو گئے۔ تاہم کبھی کبھی تاریخ ہمارے ساتھ چلتی ہے۔ کبھی کبھی یہ کسی ایسے شخص کا چہرہ پہن لیتی ہے، جسے آپ نے سڑکوں پر اپنے ساتھ مارچ کرتے ہوئے دیکھا ہو۔

ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی ٹیرف جنگ عالمی کساد بازاری کا موجب بنے گی: مائیکل رابرٹس

امریکی اشیا کی درآمدات پر ٹرمپ کا ٹیرف میں اضافہ 130 سے زائد سالوں میں سب سے بڑا ہے، جس سے موثر اوسط ٹیرف کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس سے غریب ’گلوبل ساؤتھ‘کے ممالک سے امریکہ کو اشیا کی برآمدات کو شدید نقصان پہنچے گا، جنہیں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ دوسری طرف ویتنام جیسے ملک کو 45 فیصد کے ٹیرف میں اضافے کا سامنا ہے، جبکہ چین کو 59 فیصد کے ٹیرف میں اضافے کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کے لیے 10فیصد ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے، چاہے امریکہ کا ان کے ساتھ تجارتی خسارہ نہ بھی ہو۔

’سزائے موت‘: بھٹو کی زندگی پر تھیٹر پلے کا پریمیئر 9 اکتوبر کو اوسلو میں ہو گا

ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی پر ‘یہ ڈرامہ صرف پھانسی کے متعلق نہیں بلکہ بھٹو کی ساری زندگی اور پاکستان کی تاریخ و سیاست کے متعلق ہے۔ کھیل شروع تو راولپنڈی جیل کی کال کوٹھری سے ہو گا مگر فلیش بیک سے بھٹو کی ساری زندگی کا احاطہ کیا جائے گا اور نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے بھٹو کی اچھائیوں کے ساتھ اُنکی کمزوریوں اور اُن کے وہ سیاسی اقدامات جنہیں متنازعہ سمجھا جاتا ہے، پر بھی بات ہوگی۔ تاکہ سوچ کا ایک ایسا عمل شروع ہو جس سے بھٹو کو نئے سرے سے دریافت کرنے میں مدد مل سکے۔’

کیا جنگیں صرف پیسے بنانے کے لیے ہوتی ہیں؟

جب بھی کوئی جنگ چھڑتی ہے، لوگ سب سے آسان اور سطحی وضاحت کی طرف لپکتے ہیں کہ ’یہ سب پیسے کے لیے ہو رہا ہے۔‘ وہ لینن کا مشہور جملہ دہراتے ہیں کہ ’جنگ ایک انتہائی منافع بخش چیز ہے۔‘ یہ بات کر کے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ پوری بحث کا خلاصہ ہے، یاجیسے سرمایہ داری ایک جوا خانہ ہے جہاں جنگ ڈالیں اور منافع نکال لیں۔

یوکرائن جنگ پر مارکسی موقف (کچھ بنیادی نکات)

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے اور پیوٹن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے عمل نے دنیا بھر میں یوکرائن جنگ کی بحث کو ایک بار پھر ابھارا ہے۔ ان حالات میں کچھ دن پہلے تک پیوٹن کی بالواسطہ یا براہِ راست حمایت کرنے والا کیمپسٹ بایاں بازو ایک نئے تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ہم ٹھیک دو سال قبل انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کی بین الاقوامی کانگریس میں منظور ہونے والی ایک قرارداد اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

’ملٹی پولر دنیا‘ پر خوشی سے بغلیں بجانا احمقوں کی سامراج مخالفت ہے

محنت کشوں کو ایک اپنی انٹرنیشنل تعمیر کرنی ہوگی۔ وہی کچھ کرنا ہوگا جو 19ویں صدی کے آخر میں فرسٹ انٹرنیشنل، سیکنڈ انٹرنیشنل اور بعد ازاں تھرڈ اور فورتھ انٹرنیشنل نے کیا۔ فورتھ انٹرنیشنل آج بھی متحرک ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے یا اس طرح کے دیگر نئے پلیٹ فارم تشکیل دے کر، یا موجود پلیٹ فارمز کو توسیع دے کر بین الاقوامی یکجہتی قائم کرتے ہوئے، عالمی تحریکوں کو منظم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسی عالمی تحریکیں جو نہ تو چین اور روس پر خوش فہمی رکھیں، نہ امریکہ اور یورپ پر، بلکہ وہ خود سے ایک طاقت بنیں۔ اسی طرح کی ایک طاقت جیسی 20ویں صدی کے آغاز میں سیکنڈ انٹرنیشنل ایک طاقت تھی، یا پھر جیسے ایک وقت میں تھرڈ انٹرنیشنل تھی، تب ہی جا کر ہم نجات پا سکتے ہیں۔ نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے سامراج کو شکست دیں۔ یہ سامراج امریکہ کی شکل میں ہو، یورپ کی شکل میں، یا روس اور چین کی شکل میں ہو۔

انقلاب روس میں خواتین کا کردار اور 8 مارچ کے تقاضے

ہر سال 8مارچ کو محنت کش خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ انسانی سماج کی ترقی میں عورت کے کردار کو ہمیشہ پست کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم دنیا بھر کے بڑے انقلابات سمیت عورت کی نجات اور حقوق کی جدوجہد میں خواتین کی جدوجہد کی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ یہ سماج کی وہ پرت ہے جس نے ہر سطح پر سامنے آنے اور خود کو منوانے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے۔ گھر سے شہر، شہر سے دیس اور دیس در دیس یہ کوشش اور مشقت چلتی رہی،یہاں تک کہ اس نے عالمی سطح پر گردانے جانے تک کی منزل کو بھی سر کر لیا۔