یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ غریب ملکوں سے امیر ملکوں کی طرف قدر کی منتقلی ایک غیر مساوی تبادلے کا نتیجہ ہے اور یہ سرمایہ دارانہ سیاسی معیشت کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام صرف ’کمپراڈور‘ (خارجی آقاؤں کی وفادار) قسم کی حکومتوں پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ بائیں بازو کی حکومتوں کو بھی اسی شکنجے میں رکھتا ہے۔ ترقی پذیر ملک غریب اس لیے رہتے ہیں کیونکہ وہ کم پیداوار والی، بیرونی انحصار پر مبنی معیشتوں کے حامل ہیں، اور اکثر اپنے وسائل خود نکالنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ انہیں اس مقصد کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو بلانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے اور ریکوڈک اس کی ایک واضح مثال ہے۔
