جس طرح عورت دشمنی اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں اسی طرح ٹرانس فوبیا اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں۔مزید یہ کہ عالمی کھیلوں میں اکثر غیر سفید فام کھلاڑیوں کو اس قسم کی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امہ کی محبت میں گرفتار الباکستانی ایمان خلیف کے ساتھ کھڑے ہوتے۔مگر نہیں۔ الباکستانی،مڈل کلاس، دایاں بازو۔۔۔مظلوم،کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتے۔سچ اور جھوٹ بھی ان کے لئے اہم نہیں ہوتا۔کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران الباکستانی بھارت اور افغانستان سے اتنی نفرت کا اظہار نہیں کرتے جتنی نفرت کا اظہار پچھلے ہفتے ایمان خلیف سے کیا گیا۔
ایمان خلیف نے تمام ٹرانس فوبک الباکستانیوں کے منہ پر زور دار پنچ مارا ہے! جینڈر کی بناید پر نفرت کا بہترین جواب یہی ہو سکتا تھا۔
نقطہ نظر
خلیل الرحمن پاکستان کا ثقافتی عمران خان ہے
یہی حال خلیل الرحمن قمر کا ادبی حوالے سے ہے۔ ادب مظلوم کی ٓواز بننے کا نام ہے۔ ادب فیض احمد فیض، حبیب جالب،استاد دامن،شیخ ایاز اور میر گل نصیر خان کی میراث ہے۔یہ امریتا پریتم اور فہمیدہ ریاض کی روایت ہے۔ خلیل الرحمن کا ادب بے ادبی کی بد ترین بلکہ متشدد شکل ہے۔ بلا شبہ عمران خان کی سیاست کی طرح،خلیل الرحمن قمر کے کھیل بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ وہی ہے جو عمران خان کی سیاسی مقبولیت کی وجہ ہے: رجعتی بلکہ جنونی مڈل کلاس۔ایک ایسی مڈل کلاس جو وینا ملک ڈس آرڈر کا شکار ہے۔
پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتیں: آئی پی پیز کیسے لوٹ رہی ہیں؟
بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور لوڈشیڈنگ سمیت بحران کی دیگر شکلوں کا غیر معمولی اظہار 1994ء کے بعد سامنے آنا شروع ہوا ہے۔ عالمی سامراجی اداروں کی ہدایات اور ایما پر ریاستوں نے نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کا نفاذ 80ء کی دہائی سے شروع کیا تھا۔ اسی دوران ورلڈ بینک اور امریکی ریاست کی براہ راست مداخلت سے مختلف ملکوں نے بجلی کی پیدوار سمیت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات سے دستبرداری اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور ان شعبوں کی نجکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
بلاسفیمی لنچنگ کا گہرا تعلق سیاسی موٹیویٹرز سے ہے: عطا انصاری
”کتاب لکھنے میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مجبور یا آمادہ کیاوہ مشال خان کے بہیمانہ قتل کا واقعہ تھا۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ ایک نوجوان اور ہونہار یونیورسٹی طالبعلم تھا، جسے انتہائی بے دردی اور ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ اس سے قبل سلمان تاثیرکے قتل اور ممتاز قادری کو ہیرو بنائے جانے کا معاملہ بھی ہمارے سامنے تھا۔بار بار کے یہ واقعات بے حد تکلیف، پریشانی اور بے چینی کاباعث بنتے تھے۔ اس لئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلاسفیمی کا تنازعہ یورپ اور سکینڈے نیویاسے بھی جڑا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی طرح سے یہ سوال اور معاملہ پاکستان، پاکستانی کمیونٹی، مسلمانوں، یورپ اور پاکستان سے بہت ہی زیادہ جڑا ہوا ہے۔“
’آپریشن عزم استحکام: ریاست کنٹرولڈ طالبانائزیشن چاہتی ہے‘
’’ہمیشہ سے ہم نے دیکھا کہ گڈ طالبان بیڈ بن جاتے ہیں اور بیڈ ایک وقت میں گڈ بن جاتے رہے ہیں۔ یہ ریاست کا اپنا بیانیہ ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کیلئے جو گڈ ہونگے، وہ پاکستانی ریاست کیلئے بیڈ ہونگے، جو افغان طالبان کیلئے بیڈ ہونگے، وہ ان کیلئے بیڈ ہونگے، جو دونوں کیلئے بیڈ ہونگے، وہ امریکہ کیلئے گڈ ہو جائیں گے۔ یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر عسکریت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اب لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
شیام: اے سٹار فارگاٹن
شیام روشن خیال اور وسیع النظر انسان تھے۔ انگریزی اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ تھا۔سعادت حسن منٹو ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اشاعت سے پہلے منٹو اپنی کہانیاں شیام کو پڑھاتے۔دیگر قریبی دوستوں میں اداکار اوم پرکاش بھی شامل تھے۔اوم پرکاش سے لاہور میں دوستی ہوئی۔ اوم پرکاش نے ہی پہلی دفعہ فلم میں کام لینے میں مدد دی۔فلم پنجابی زبان میں تھی،نام تھا ’گوانڈھی‘ (پڑوسی،1942) جو لاہور میں بنی۔
ناروے اور نظامِ طاغوت (پارٹ ٹُو)
پاکستان میں ناروے جیسا حقیقی طاغوتی نظام رائج کرنے کے لیئے مذھب کو آئین و قانون، پالیمینٹ و عدالتی نظام سے بے دخل کرنا ہوگا تاکہ قرونِ وُسطیٰ کے پادریوں اور چرچ کی ترجمانی کرنے والے پریچرز اور میڈیائی مداریوں کی زھریلی اور کھوکلی منطق سے نجات مل سکے اور یہ کام ۱۹۴۹ کی قراردادِ مقاصد کو بابائے قوم کی نافرمانی اور اقلیتوں کے خلاف اُس زمانے کے پریچرز اور اُنکے حواریوں کی گھنونی سازش تسلیم کرتےہوئے ۱۹۷۳ کے آئین سے بھی اسلام کو بے دخل کردینے سے شروع ہوسکے گا۔
ناروے اور نظامِ طاغوت (حصہ اول)
حال ہی میں سما چینل پر مکالمہ نامی پروگرام میں لکھاری خلیل اُلرحمن قمر اور ٹی وی پریچر ساحل عدیم کو عورتوں کو درپیش مسائل پر رائے زنی کے لیے بلایاگیا۔ میں پروگرام کے آغاز میں یہ سوچتا رہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بات تو عورتوں کے حقوق پر ہورہی ہے،مگر اسٹوڈیو میں بطورِ مہمان صرف مرد حضرات کو ہی بلایا گیا ہے۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ پبلک میں بیٹھی ایک باشعور و تعلیم یافتہ لڑکی کو تنقیدی تبصرہ اور کڑوے سوال کرنے پر اس طرح جھڑک کر حقارت سے گھورا گیا کہ جیسے کوئی جاہل و بدکردار جاگیردار اپنے زرخرید غلام کی تذلیل کر رہا ہو، مگر ازبا عبداللہ نامی اس بہادر لڑکی نے95 فیصد عورتوں کو جاہل کہنے والے دونوں ادھیڑ عمر مردوں کو نہایت ہی بردباری و معلمانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کھولتے تیل کے کڑھائے میں پھینک دیا۔
’ماضی کے متاثرین تاحال بے یارومدد گار ہیں، نیا ملٹری آپریشن کوئی قبول نہیں کرے گا‘
ماضی کے آپریشنوں کی وجہ سے خیبر ایجنسی میں تیرہ اور دیگر علاقوں سے بے دخل کئے گئے لوگ آج بھی آئی ڈی پی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بحالی کے نام پر ہر خاندان کو ایک ایک خیمہ اور کچھ راشن دے کر تباہ حال علاقوں میں جبری طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ بنوں میں آج بھی لوگ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ماضی کے تلخ تجربات کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم نے لوگوں میں شعور بیدار کر دیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ آپریشن ہوگا تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ جب تک گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ختم نہیں ہوتی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بائیں بازو کو اس آپریشن کے خلاف کراچی، لاہور ، راولپنڈی جیسے شہروں میں احتجاج منظم کرکے آپریشن کی مخالفت کرنی چاہیے۔
’دہشت گردی سے زیادہ حکومتی آپریشنوں نے نقصان پہنچایا‘
آپریشن عزم استحکام کا نشانہ اس بار بھی بلوچستان اور پختونخوا کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی اضلاع یعنی سابق فاٹا کے اضلاع بنتے نظر آرہے ہیں۔ پختونخوا میں تمام لوگ ہی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دہشت گردی سے متاثرہ ہیں۔ ان کے لوگوں کو مارا گیا، ٹارگٹ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ ان کی زندگیوں کو برباد کیا جا رہا ہے، لیکن وہ پھر بھی ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ماضی کے آپریشنوں کا تجربہ ہے، جو بہت تلخ رہا ہے۔لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شاید کچھ دہشت گردوں کے خلاف حکومت آپریشن کرتی بھی نہیں ہے۔ گڈ بیڈ طالبان کی تفریق کی جاتی ہے۔