نقطہ نظر


سری لنکا: ”عوامی بغاوت کے 2 سال بعد مارکس وادی صدر بن گیا“

نئے سری لنکن صدرکا انتخابی منشور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ فریم ورک کے اندر کچھ تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے مقداری اور ساختی اہداف پر نظر ثانی سے انکار کرنے پر معاہدہ توڑنے جیسے اقدام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے اندر رہتے ہوئے اس منشورپر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا۔ وعدے اور اعلانات نہ صرف مبہم ہیں بلکہ ان کو پورا کرنے کیلئے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا۔ کئی دہائیوں سے شاؤنزم اور بالادستی میں ڈوبی سنہالہ قوم میں انتخابی بنیادیں ان آئینی تبدیلیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہونگی، جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

’پنجابی مزدوروں کے قتل سے متعلق متضاد دعوے، سچ کہیں درمیان میں ہی ہے‘

’’مسلح کارروائیوں میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے حوالے سے ان متضاد دعوؤں میں میرے خیال میں سچ کہیں درمیان میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پنجابی اور عام لوگ مارے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی تردید کرنا ایک بددیانتی ہوگی۔ تاہم پھر سارے مرنے والے لوگوں کو عام لوگ قرار دے کر اس کو بطور ایک بیانیہ فروغ دینا بھی شاید ایک درست بات نہیں ہے۔ جن کو یہ مسلح تنظیمیں اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہ بھی ان کو دشمن تصور کرتے ہیں اور ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف متضاد دعوے ہیں، لیکن دونوں طرف عام لوگ بھی مارے گئے ہیں۔۔۔۔بجائے اس کے کہ ہم اس معاملے میں پھنسے رہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاملے سے بچ سکتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کیسے؟ میرے خیال میں بچا جا سکتا ہے۔ ایک پر امن، جمہوری، ترقی پسند اور عوام دوست ریاست کا قیام کیا بہت مشکل ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، دنیا میں لوگوں نے ایسا کیا ہوا ہے۔‘‘

سیکولرازم کیا ہے اور سیکولر سیاست و ریاست کیوں ضروری ہے؟

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کی کامیابی نے جہاں ریاست کی مادی قوت کو شکست دی ،وہاں سامراجی تسلط اور سرمایہ دارنہ استحصال کے جواز مہیا کرنے والے نظریات کو بھی شکست سے دوچار کیا۔محنت کش عوام اور نوجوانوں میں سماج کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے والے نظریات کو سیکھنے کی پیاس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔قومی آزادی، سیکولرازم اور سوشلزم کے نظریات اور اصطلاحات پر بحث میں اضافہ ہوا ہے۔نوجوانوں اور محنت کشوں کے ترقی پسند نظریات اور رحجانات کی جانب جھکاؤ نے مقتدر قوتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔سیکولر سیاست پر یقین رکھنے والے سوشلسٹ اور نیشنل اسٹ رحجانات کے خلاف ریاست کے آلہ کاروں کے ذریعے کفر و الحاد کے فتوے اور مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

جاہل رہنا انسان کا جمہوری حق سہی مگر جہالت نقطہ نظر نہیں ہوتا

اس سال کے آغاز میں اتفاق سے،لاہور میں ایک ایسے اجلاس میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا کاپی رائٹس۔ کاپی رائٹس دنیا کی ایک بڑی صنعت ہے۔ اپنی ڈاکٹریٹ پر تحقیق کے دوران، بالخصوص ڈبلیو ٹی او کے حوالے سے نئی قانون سازی کے پس منظر میں راقم نے بھی اس موضوع سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ میری تحقیق کا موضوع گلوبلائزیشن کے عہد میں میڈیا سامراج کا جائزہ لینا تھا۔

’2000ء کے بعد پاکستان میں 16 ہزار 600 دہشت گردانہ حملے ہوئے‘ 

میں پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کا طالب علم کارکن تھا، جہاں میں اپلائیڈ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ میں مذہبی جنونیوں کے خلاف کئی لڑائیوں میں مدد اور قیادت کرتا رہا ہوں۔ 1977 کے آخر میں میرے ایک مضمون میں پیپلز پارٹی کی دائیں بازو کی قیادت اور فوجی جنرل کے درمیان ہونے والی سازش کو بے نقاب کرنے کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ میں نے 8 سال جلاوطنی میں گزارے اور پھر ایک شہری کے طور پر ہالینڈ میں رہنے کا اختیار ہونے کے باوجود پاکستان واپس آ گیا۔ میں 1997 سے 2019 تک لیبر پارٹی پاکستان اور بعد میں عوامی ورکرز پارٹی کا جنرل سیکرٹری رہا۔ میں نے AWP چھوڑ کر ایک نئی سیاسی جماعت حقوق خلق پارٹی بنائی، اور میں اس کا صدر ہوں۔ میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا جنرل سیکرٹری بھی ہوں۔ یہ پاکستان کی واحد تنظیم ہے جو La Via Campesinaسے منسلک ہے۔ میں ایشیا یورپ پیپلز فورم ایشیا ٹیم کا سربراہ بھی ہوں، اور کئی دیگر علاقائی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز میں شامل ہوں۔

حسینہ کے فرار کی توقع کسی کو نہیں تھی: نوین مرشد

’’لوگوں نے یہ شیخ مجیب کو مسترد نہیں کیا۔ نوجوان نسل تو انہیں زیادہ جانتی بھی نہیں ہے۔ یہ شیخ حسینہ کے اعمال کا رد عمل ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کیلئے جس طرح شیخ مجیب کو لوگوں پر مسلط کیا، یہ سب اس کا رد عمل ہے۔ ہر جگہ ان کے نشان تھے، ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ مجیب کا بنگلہ دیش ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرے باپ کا ملک ہے، میرے باپ نے ملک آزاد کروایا۔ انہوں نے اپنے باپ کو اتنا بیچا کے لوگ تنگ آگئے۔‘‘

’حسینہ فرار نہ ہوتیں تو ان کی لنچنگ ہو جاتی، لوگ سری لنکا ڈھاکہ میں دہرانا چاہتے تھے‘

(ہنستے ہوئے)بنگلہ دیش کی فوج عبوری حکومتیں بنانے کی مہارت رکھتی ہے۔ اچھے انداز میں بھی۔برے انداز میں بھی۔ مارشل لا تو نہیں لگا۔ عبوری حکومت بنے گی۔ادہر طلبہ کل (منگل کے روز) پریس کانفرنس کریں گے۔ ابھی تک افواہ یہ ہے کہ طلبہ نے فوجی سر براہ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ صدر سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس سب سے قطع نظر، طلبہ حزب اختلاف کے 31 نکات پر عمل درآمد کی بات کرتے آئے ہیں۔ اس منشور کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کو جمہوری بنایا جائے۔ جبر کا خاتمہ ہو۔مختلف طرح کی اصلاحات ہوں۔طلبہ اس ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ ہو گا کیا،یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔

اسمعیل ہنیہ، ایمان خلیف اور پاکستانی معاشرے کا سرکاری تعفن

جس طرح عورت دشمنی اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں اسی طرح ٹرانس فوبیا اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں۔مزید یہ کہ عالمی کھیلوں میں اکثر غیر سفید فام کھلاڑیوں کو اس قسم کی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امہ کی محبت میں گرفتار الباکستانی ایمان خلیف کے ساتھ کھڑے ہوتے۔مگر نہیں۔ الباکستانی،مڈل کلاس، دایاں بازو۔۔۔مظلوم،کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتے۔سچ اور جھوٹ بھی ان کے لئے اہم نہیں ہوتا۔کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران الباکستانی بھارت اور افغانستان سے اتنی نفرت کا اظہار نہیں کرتے جتنی نفرت کا اظہار پچھلے ہفتے ایمان خلیف سے کیا گیا۔
ایمان خلیف نے تمام ٹرانس فوبک الباکستانیوں کے منہ پر زور دار پنچ مارا ہے! جینڈر کی بناید پر نفرت کا بہترین جواب یہی ہو سکتا تھا۔

خلیل الرحمن پاکستان کا ثقافتی عمران خان ہے

یہی حال خلیل الرحمن قمر کا ادبی حوالے سے ہے۔ ادب مظلوم کی ٓواز بننے کا نام ہے۔ ادب فیض احمد فیض، حبیب جالب،استاد دامن،شیخ ایاز اور میر گل نصیر خان کی میراث ہے۔یہ امریتا پریتم اور فہمیدہ ریاض کی روایت ہے۔ خلیل الرحمن کا ادب بے ادبی کی بد ترین بلکہ متشدد شکل ہے۔ بلا شبہ عمران خان کی سیاست کی طرح،خلیل الرحمن قمر کے کھیل بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ وہی ہے جو عمران خان کی سیاسی مقبولیت کی وجہ ہے: رجعتی بلکہ جنونی مڈل کلاس۔ایک ایسی مڈل کلاس جو وینا ملک ڈس آرڈر کا شکار ہے۔

پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتیں: آئی پی پیز کیسے لوٹ رہی ہیں؟

بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور لوڈشیڈنگ سمیت بحران کی دیگر شکلوں کا غیر معمولی اظہار 1994ء کے بعد سامنے آنا شروع ہوا ہے۔ عالمی سامراجی اداروں کی ہدایات اور ایما پر ریاستوں نے نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کا نفاذ 80ء کی دہائی سے شروع کیا تھا۔ اسی دوران ورلڈ بینک اور امریکی ریاست کی براہ راست مداخلت سے مختلف ملکوں نے بجلی کی پیدوار سمیت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات سے دستبرداری اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور ان شعبوں کی نجکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا۔