نقطہ نظر

[molongui_author_box]

غربت اور عورتوں کی حالت زار آج کے اہم مسائل ہیں: فرزانہ راجہ

ے نظیرانکم سپورٹ پروگرام(BISP) کی سابق چئیرفرزانہ ر ا جہ نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور عورتوں کی حالت زار آج ملک کے اہم مسائل ہیں۔ان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان میں غربت کے خاتمے اور عورتوں کی فلاح کے پروگرام BISPکوسماجی کاوشوں کا ایک شفاف پروگرام قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس کامیاب پروگرام کے فوائد اب عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔

ڈائریکٹر ایچ ای سی صاحبہ: پابندی لگانی ہے تو یونیورسٹی فیسوں پر لگاؤ

ویسے مولوی حضرات کے مطابق’ہماری روایت‘ تو یہ بھی ہے کہ خواتین کو گھر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ معلوم نہیں جب طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کیا تو آپ خوش ہوئی تھیں یا نہیں۔ بہرحال ’ہماری روایات‘کے نام پر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ میں نے لنکڈ اِن پر آپ کا سی وِی(CV) دیکھا۔ سی وِی پر بات کرنے سے پہلے آپ کی توجہ آپ کے لنکڈ اِن والے سی وی پر مبذول کراتا چلوں: جہاں آپ نے اپنے کیتھڈرل سکول کا ذکر کیا ہے، وہاں لاہور کے سپیلنگ غلط ہیں۔

’مارکس سے خائف لوگ‘

’مارکس سے خائف لوگ‘ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے، جو پاکستانی سماج، اسکی سیاست، ریاست، پاپولر کلچر اور صحافت کا مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتی ہے۔ مختلف تبصروں کے اس مجموعے کے مصنف عامر رضا کا کمال یہ ہے کہ وہ دقیق تھیوریٹکل سوالوں پر بحث کوانتہائی آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں، یا یوں کہیں کہ یہ کتاب مصنف کی گہری سماجی نظراور داستان گوئی کی باکمال صلاحیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ جس میں حکمران طبقات کی طرف سے تخلیق کردہ بیانیوں کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہوئے مذہب، نظریے اورسیاست کو پرکھنے کا ایک متبادل نقطہ نظرپیش کیا گیا ہے۔

”افغان خواتین کے لیے صحافت انتہائی خطرناک پیشہ ہے“: زہرہ نادر سے انٹرویو!

زہرہ نادر افغان صحافی ہیں جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں اور افغانستان کے آن لائین اخبار ”زن ٹائمز“ کی ادارت بھی کررہی ہیں۔ نوے کی دہائی کے دوران ملک پر طالبان کے قبضے کے بعدوہ ایران منتقل ہو گئی تھیں۔ امریکہ کے ہاتھوں طالبان کی پسپائی کے بعد دوبارہ وطن آ کر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئیں۔

آدم خور آئین

سرکاری گراؤنڈ میں لوگوں کی قطاریں لگی تھیں۔ صفدر بھی ایک قطار میں موجود تھا۔ ہزاروں مرد و خواتین کا یہ مجمع حکومت کی طرف سے مفت آٹا ملنے کی خبر سننے کے بعد یہاں جمع ہوا تھا۔ تاہم آٹا تو صرف انہیں ملنا تھا، جو سرکاری امدادی پروگرام کے سروے کے دوران منتخب کئے گئے تھے۔ ان منتخب لوگوں کو موبائل پر آٹا وصول کرنے کا میسج آیا تھا۔ صفدر سمیت دیگر ہزاروں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس سروے کی مستحق افراد کی فہرست میں موجود ہی نہیں ہیں۔

SIR: تعلیم کے کاروبار کیخلاف ایک طاقتور فلم

پاکستان میں بھی تعلیم ایک جنس بن چکی ہے جس کے کور پر لکھا ہوا ہے’غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘۔ ایک طرف تعلیم اس ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے اور دوسری طرف ’سرکاری اعداد و شمار‘ کے مطابق تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ بلوچستان میں 95 فیصد بچیاں سکولوں سے باہرہیں۔ اعلیٰ تعلیم تو لوگوں کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔ نجی تعلیم سماج کے لیے ایک باشعور اور آزاد انسان پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ اسکے خمیر سے صرف کارپوریٹ غلامی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اس ملک کی طلبہ تحریک کو تعلیم کے اس کاروبار کے خلاف جدوجہد تیز ترکرنا ہو گی اور مفت تعلیم کا حق چھیننا ہو گا۔

فیض کی شاعری سوشلزم کی پکار تھی

فیض فیسٹیول میں ان کی اردو میں سوانح عمری بارے ہونے والے سیشن کے دوران کسی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا: فیض کے ذہن میں ان کی شاعری کا ایک خاص سیاسی اور نظریاتی (سوشلسٹ) مقصد تھا مگر ایسا کیوں کہ ان کی شاعری کو اکثر سیاق و سباق سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے؟ بہ الفاظ ِدیگر، فیض نے مزدوروں، کسانوں، ٹریڈ یونین، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، کے لئے جو جدوجہد کی اس پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا شائد فیض صاحب نے خود دیا ہوتا؟ یہ سوال فیض فیسٹیول کی میڈیا کوریج کے پس منظر میں پوچھا گیا تھا۔

’اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘

یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔
تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

ایک ممتحن کی غلطی نے آشکار کیا

دلیل کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اسے اصول کے تابع ہونا چاہئے۔ اگر ہم ترقی پسند ہیں تو ہمارے کچھ اصول بھی ہیں ورنہ ہم موقع پرست ہیں۔ ترقی پسندوں اور قوم یوتھ میں اگر فرق ہے تو اصول پرستی کا ہے۔ دوم، دلیل وہ ہوتی ہے جو یونیورسل ہو۔ اگر ایک سوال آکسفورڈ یونیورسٹی میں پوچھا جا سکتا ہے تو وہ سوال کامسیٹ میں اٹھانے کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر ہم دلیل کو ’Relative‘ بنا دیں گے تو یہ ہمارے گلے پڑ جائے گی۔ اگر کامسیٹ کا لیکچرر محرمات کے مابین سیکس پر سوال نہیں پوچھ سکتا تو پاکستان کے فوجی بجٹ پر سوال اٹھانا بھی منع ہونا چاہئے۔ کیا خیال ہے؟

’پٹھان‘ پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ منافقت اور جہالت سے لبریز ہے

فاطمہ بھٹو کو تو شائد پتہ بھی نہ ہو گا کہ جس طرح جموں کشمیر میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مقبولیت دلا کر کشمیری سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے اور جموں کشمیر کو بھارتی مرکزی دھارے کی سیاست سے ہم آنگ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اسی طرح کی پالیسی 50 سال قبل بھٹو نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب نافذ کر لی تھی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ذیلی شاخ قائم کی گئی تھی، بلکہ ایوب آمریت میں اس خطے پر مسلط کئے گئے حکمران عبدالحمید خان کو ہی وزیر اعظم بھی بنا دیا تھا۔