کمزور افغانستان بنے گا تو اتنا ہی امکان ہے کہ پڑوسی ممالک استحصال کے مواقع تلاش کریں گے۔ ایک اچھی شہرت نہ رکھنے والے افغان رہنما کا حالیہ دورہ پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک نے بظاہر ایسی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے جو اسے اپنے مفادات کے لئے استحصال کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ بہر حال ہر ملک اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ طالبان کی عدم موجودگی میں ان کے پاس اور کیا مواقع ہیں۔
نقطہ نظر
’مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات سندھ سے زیادہ پنجاب میں ہوئے‘
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا آئین مذہبی اکثریت کی بنیاد پر بالادستی قائم کرتا ہے۔
کیڑو، سماجی سرحدیں اور ایک دھان پان سی لڑکی!
دھان پان سی وہی لڑکی جس نے اپنی شعوری زندگی کا آغاز لاہور سے کیاتھا، ایک لمبے سفر کی دھوپ چھاوں سے گزر کر کندن بن چکی ہے!
’نواز لیگ سیاسی بنیاد پر پرویز رشید کو پی ٹی وی لائی تھی، پی ٹی آئی نعیم بخاری لے آئی ہے‘
عصمت اللہ نیازی 30 سال سے زائد عرصہ پی ٹی وی کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔
صدر میکروں سے سامراجی میڈیا تک، میراڈونا سے تعصب واضح تھا
خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نہ صرف ان کے جادوئی کھیل کی تعریف کی گئی بلکہ مرحوم کی ترقی پسندانہ سیاست کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
27 نومبر کو طلبہ ملک بھر میں نکلیں: آمنہ وحید
گزشتہ سال مارچ کی وجہ سے وزیراعظم نے بھی ٹویٹ کیا، سندھ اسمبلی میں بل پیش ہوا، ایک نئی بحث کھلی۔ اگر کوئی طلبہ مارچ میں نہیں بھی آسکتا تو کم از کم مطالبات پر ضرور غور کرے۔ ساٹھ فیصد طلبہ کے پاس یونیورسٹی کیمپس اور تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جب تک سب لوگ آزاد نہیں ہو
’بلوچستان کے صوبہ بننے سے مسئلے حل نہیں ہوئے تو گلگت بلتستان صوبہ بھی کسی مسئلے کا حل نہیں‘
نہ تو ہمارے قدم لڑکھڑائے ہیں، نہ ہمارے حوصلے کمزور ہوئے ہیں اور نہ ہی ہم جدوجہد کے سفرمیں تھکن محسوس کر رہے ہیں بلکہ ہم پہلے سے زیادہ مضبوط بنیادوں پر اپنی پارٹی کو مضبوط کرتے ہوئے، پارٹی کیڈرز کو نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر تیار کرتے ہوئے فیصلہ کن لڑائی کے لئے آگے بڑھیں گے اور حتمی فتح تک جدوجہد کا سفر جاری رکھیں گے۔
شاعری: انقلاب کا موثر ہتھیار
مزدور و مال دار کا ہے مختلف مفاد
دیر کی طالبہ کا طالبان کے نام خط: ’بھائیو برقعہ بھی تو کفن ہی ہے‘
یقین کیجئے ہم نے صبح کالج جاتے ہوئے برقع پہنا ہو نہ پہنا ہو، دِیر سے لے کر کراچی تک ہم نے سر پر کفن ضرور پہنا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کب کسی بھائی، کزن، طالب یا مجاہد کی غیرت جاگ جائے اور نا مناسب لباس یا خاندان کو بد نام کرنے کے الزام میں ہم پر تیزاب پھینک دے، بندوق کی لبلبی دبا دے یا کسی خنجر کی پیاس ہمارے خون سے بجھا دے۔
کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب کیوں بچا ہوا ہے؟
ایک چھوٹا سا کیربئین جزیرہ، صدیوں سے کلونیل ازم اور سامراجیت کی وجہ سے پس ماندگی کا شکار، ساٹھ سال سے امریکی پابندیوں اور بائیکاٹ کا نشانہ، ان تمام مشکلات کے باوجود پوری دنیا کو کیا کچھ فراہم کر رہا ہے؟ میری کتاب ایسے ہی سوالوں کا جواب دیتی ہے۔