نقطہ نظر

سویڈش لیفٹ قرآن جلانے کے خلاف ہے: ہوکن بلومکوست

فاروق سلہریا

16 اکتوبر کو سویڈن کے دو شہریوں کو برسلز میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔یہ سویڈش شہری برسلز میں فٹ بال میچ دیکھنے گئے تھے جہاں سویڈن کا مقابلہ بلجئیم سے ہو رہا تھا۔ان سویڈش شہریوں کو ہلاک کرنے والے شخص عبدلاسلام السود کاتعلق تیونس سے تھا۔ داعش سے مبینہ تعلق رکھنے والا السود سیاسی پناہ کے لئے بلجئیم آیا تھا مگر 2019 میں سیاسی پناہ کی درخواست رد ہونے کے بعد ’غیر قانونی‘ طور پر بلجئیم میں رہ رہا تھا۔

سویڈش شہریوں کو قتل کرنے کے بعد السود نے ایک ویڈیو پیغام اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جس میں سویڈش شہریوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ اگلے روز السود کی ایک کیفے میں موجودگی کی اطلاع پا کر پولیس وہاں پہنچی اور السود پر گولی چلا دی۔ السود نے بعد ازاں ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ اس واقعہ کو سویڈن میں قرآن جلانے کے واقعات سے جوڑا گیا ہے۔ اِمسال اِن واقعات میں شدت دیکھی گئی ہے۔ گذشتہ اگست میں سویڈن کی حکومت نے القاعدہ اور داعش کی دھمکیوں کے بعد خطرے کا لیول بڑھا کر چار کر دیا تھا۔ سویڈن میں خطرے کے پانچ لیول ہیں۔ اس سے قبل، جولائی میں عراق نے سویڈش سفیر کو اِسی سوال پر ملک سے نکال دیا تھا جبکہ سویڈن کے بغداد میں موجود سفارت خانے کو مظاہرین نے نذر آتش کر دیا تھا۔ یاد رہے، امسال قرآن جلانے کے واقعات میں ایک عراقی شہری ملوث ہے جس نے سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔

گو اسلام پر تنازعے کے حوالے سے سویڈن 2007 میں پہلی بار عالمی شہ سرخیوں کا حصہ بنا جب سویڈش آرٹسٹ لارش الکس نے پیغمبرِ اسلام کے متنازعہ خاکے بنائے مگر گذشتہ دو سال سے سویڈن مسلسل عالمی شہ سرخیوں میں ہے جس کی وجہ قرآن کو نذر آتش کرنے کے مسلسل واقعات ہیں۔ ان واقعات میں اتنا تسلسل کیوں آیا؟

ہوکن بلومکوست (Håkan Blomqvist)کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سویڈن میں بائیں بازو کی ایک ایسی حکومت کی تشکیل بھی ہے جو فار رائٹ جماعت، سویڈن ڈیموکریٹس، کی مدد سے قائم ہوئی۔ اس حکومت کے قیام سے ایسے حالات بنے کہ قرآن جلانے کے واقعات میں تیزی آئی۔

ہوکن بلومکوست سٹاک ہولم کی سودرتورن یونیورسٹی(Södertorn University) میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر پڑھاتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف،ہوکن بلومکوست سویڈن کی لیفٹ پارٹی کے رکن ہیں اور بطور مارکسی تاریخ دان سویڈن کے دانشور حلقوں میں ایک معتبر نام ہیں۔ ان کی تحقیقی کا خاص موضوع سویڈن کی مزدور تحریک ہے۔

ّ’روزنامہ جدوجہد‘کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے قرآن کو نذر آتش کرنے کے حوالے سے سویڈش بائیں بازو کو موقف بھی بیان کیا اور اس صورتحال کا جائزہ بھی پیش کیا۔

سویڈن برداشت اور لبرل اقدار کے لئے مشہور ہے مگر اچانک قرآن جلانے کے واقعات میں تیزی کیوں آ گئی ہے؟

برداشت اور لبرل اقدار والا امیج زیادہ درست نہیں ہے۔سویڈن بہت بدل گیا ہے۔ کافی عرصے سے یہاں دائیں بازو کے انتہا پسند، مہاجرین مخالف جذبات اورپناہ گزینوں کی مخالفت کرنے والے منظم گروہ پائے جاتے ہیں جو دوسرے کلچر سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں اور اسلام کے خلاف ہیں۔ سویڈن ڈیموکریٹس دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ہے، اسے پہلی بار 2010 میں بڑی انتخابی کامیابی ملی۔ گذشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں وہ سوشل ڈیموکریٹس کے بعد دوسری بڑی پارٹی تھی۔ یہ جماعت پناہ گرینوں کے بھی خلاف ہے اور اسلام کے بھی۔

2015 میں جب نام نہاد مہاجرین کا بحران پیدا ہوا تو حکومتوں نے،چاہے وہ دائیں بازو کی تھیں یا بائیں بازو کی، سرحدیں تقریبا بند کر دیں۔ گذشتہ عام انتخابات کے بعد رائٹ ونگ لبرل جماعتوں نے حکومت قائم کی۔ سویڈن ڈیموکریٹس حکومت میں تو شامل نہیں مگر ان کے ووٹ سے حکومت بن سکی۔ یوں اس حکومت کے بننے سے دائیں بازو کے رجحانات، جو پہلے سے زور پکڑ رہے تھے، انہیں اور شہ مل گئی۔

ڈنمارک نژاد سویڈش شہری، رسمس پالودن(Rasmus Paluden)، کو 2020 میں ایک رائٹ ونگ سیاسی کارکن نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ایسٹر کے موقع پر قرآن کو نذر آتش کرے۔ اس کے بعد دائیں بازو کے انتہا پسندوں ااور اسلام مخالف گروہوں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا۔

سویڈن کے بائیں بازو، بالخصوص لیفٹ پارٹی یا فار لیفٹ کے دیگر گروہوں کا قرآن کو نذر آتش کرنے بارے کیا موقف ہے؟

بایاں بازو اس سلسلے کو روکنا چاہتا ہے۔ بعض اوقات بائیں بازو کے کارکنوں نے ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے قرآن جلانے کی کوشش کو روکنے کی کوشش کی۔ بائیں بازو کا موقف ہے کہ ملک میں ’نسلی گروہوں کے خلاف تعصب کا قانون‘ موجود ہے،اس سلسلے کو روکنے کے لئے اس قانون کواستعمال میں لایا جائے۔ سویڈن میں فاشزم کی علامت سواستیکا یا ہٹلر کی تصویر والا بیج لگانا منع ہے۔ اسے یہود دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت سمیت بائیں بازو کا موقف یہ ہے کہ مندرجہ بالا قانون کے تحت یہ سلسلہ روکا جائے۔

حال ہی میں سویڈن کے ایک چھوٹے قصبے میں ایک شخص کو قرآن جلانے کے سلسلے میں اس وجہ سے بھی سزا ہوئی کہ اس نے اس موقع پر مسلم مخالف،نازی ترانے بجائے۔

آپ مزدور تحریک پر بھی تحقیق کرتے ہیں۔ سویڈن کی ٹریڈ یونین تحریک کا ان واقعات بارے کیا موقف ہے؟

عمومی طور پر ٹریڈ یونین تحریک ایسے واقعات کے خلاف ہے کیونکہ اس سے مزدوروں میں تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ محنت کش طبقے کا ایک قابل ذکر حصہ بیرون ملک سے آنے والے مزدوروں پر مبنی ہے،جن میں سے بہت سارے مزدور مسلمان ہیں۔ میرے علم کے مطابق، ٹریڈ یونین تحریک نے کہیں یہ مطالبہ تو نہیں کیا کہ نئی قانون سازی کی جائے لیکن ٹریڈ یونین کانگریس (جسے سویڈش میں ایل او کہا جاتا ہے) وہی موقف اختیار کرتی ہے جو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کرتی ہے کیونکہ ایل او (LO)کی قیادت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت کا بھی حصہ ہوتی ہے۔ عمومی طور پر آزادی اظہار بارے جو نقطہ نظر ہے وہی نقطہ نظر ٹریڈ یونین نے اس مسئلے پر بھی اپنایا ہے۔

موجودہ رائٹ ونگ مخلوط حکومت کا کیا موقف رہا ہے؟

یہ حکومت نسلی اقلیتوں کے خلاف مندرجہ بالا قانون کی بجائے قرآن جلانے کے مسئلے کو قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اس حکومت کے مطابق اگر پولیس (یا عدالت) سمجھے کہ اس طرح کے واقعات سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو قرآن جلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ موقف اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت سویڈن ڈیموکریٹس کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ یوں نسلی امتیاز کے مسئلے کو قومی سلامتی کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ایک جانب کہا جاتا ہے کہ آزادی اظہار کا سوال ہے۔ دوسری جانب اسے اسلامو فوبیا قرار دیا جاتا ہے۔ اس پیچیدگی کو کیسے طور کیا جا سکتا ہے؟

میرے نزدیک یہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ سویڈن جیسے ملک میں ہمیشہ کچھ حدود و قیود مقرر کی جاتی ہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر بھی ہر بات کی اجازت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پیڈو فیلیایا نازی طرز کے قتل عام یا نسلی گروہوں کے خلاف نفرت پر مبنی پراپیگنڈے کی اجازت نہیں ہے۔ مذہبی عقائد یا دہریت پر تنقید حتیٰ کہ ان کا مذاق اڑانے کی بھی اجازت ہے مگر نسلی و قومی گروہوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں۔

پہلے سویڈن میں ایک قانون موجود تھاجسے ’مذہب کے لئے امن‘ (Trosfrid)کا نام دیا گیا۔ اس قانون کے تحت مذہب کی ہتک نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہ قانون 1970 میں منسوخ کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشرہ سیکولرائز ہو رہا تھا،پھر یہ کہ آرٹسٹ اور ادیب اس کی مخالفت کر رہے تھے کیونکہ مذہب پر تنقید کے نتیجے میں یہ ان پر جبر کے لئے استعمال ہوتا تھا۔

سولہویں صدی تک سویڈن ایک پروٹسنٹ ملک ہے۔ یہاں ریاستی چرچ بہت طاقتور تھا۔ انیسویں صدی کے آخر تک، مذہب پر تنقید کی سزا قید تھی۔ اس سے قبل، موت کی سزا ملتی تھی۔ بیسویں صدی میں چرچ کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ 1951 میں قانون بنا کہ ریاستی چرچ کو ترک کر کے کوئی اور مذہب یا فرقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ 1960 میں سکول میں مسیحی دعاوں کا سلسلہ ختم ہوا۔ 1970 میں آزادی ملی کہ مذہب پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ 2000 مین ریاست کو چرچ سے علیحدہ کیا گیا اور مذہب ایک فرد کا ذاتی مسئلہ قرار پایا۔

میرے خیال میں آزادی اظہار کا مطلب مذہب کے ماننے والوں، نسلی یا قومی گروہوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا نام نہیں۔

سویڈن ڈیموکریٹ قرآن جلانے کی حمایت کر رہے۔ یہ حمایت آزادی اظہار کے نام پر کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب، حکومت پریس کو ملنے والی سبسڈی ختم کر رہی ہے جس سے ترقی پسند پریس متاثر ہو گا جو ہمیشہ تنقیدی روئیے کے لئے مشہور رہا ہے۔ اس تضاد کا حکومت کیسے دفاع کرتی ہے۔

ان کے نزدیک یہ کوئی تضاد نہیں۔ آزادی اظہار کی بات وہ جمع خرچ کی حد تک ہی رہتے ہیں۔ وہ اسلام مخالف اقدامات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسلام کا سویڈش قوم سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اسلام کو ہر ممکن حد تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ اسلاموفوبیا پر کسی قسم کی بندش نہیں لگانا چاہتے۔ اس لئے جس طرح انہوں نے قرآن جلانے کو قومی سلامتی کا مسئلہ بنایا ہے اسی طرح وہ اسے پناہ گزینوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں (جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے:قرآن جلانے کے حالیہ واقعات میں ایک عراقی پناہ گزیں شامل ہے: مدیر)۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن جلانے والے کو ملک بدر کر دیا جائے۔

رہا اس بات کا سوال کہ پریس کی چاہے وہ لبرل اخبار ہوں یا بائیں بازو کے، جو بھی اسلامو فوبیا کے خلاف ہے، وہ اس کی سبسڈی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

القاعدہ کی دھمکیوں کے بعد سویڈن میں تھریٹ لیول بڑھا دیا گیا تھا۔ آپ کے نزدیک سویڈن پر حملوں کا کتنا خطرہ ہے۔

16 اکتوبر کو برسلز میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خطرہ تو ہے۔ یہ خطرہ اس پس منظر میں اور زیادہ حقیقی بن گیا ہے کہ سویڈن کی حکومت کھل کر غزہ پر اسرائیلی حملے کی حمایت کر رہی ہے۔ فلسطین کو ملنے والی سویڈش امداد بند کر دی گئی ہے۔ سویڈن نے فلسطین کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ یہ حکومت اس فیصلے کو بھی واپس لینا چاہتی ہے۔

 

 

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔