فاروق سلہریا
اگر جھوٹ بولنا ہو تو پاکستانی میڈیا سے زیادہ آزاد میڈیا شائد دنیا میں کہیں نہ ہو۔ صرف ایک شرط ہے: جھوٹ بولنے والا اسٹیبلشمنٹ کا منظورِ نظر ’تجزیہ نگار‘ ہو۔ اس کی تازہ مثال گذشتہ روز چینل 92 پر دیکھنے کو ملی۔ ہارون رشید، جنہیں صحافت میں ضیا الحق کی باقیات قرار دیا جا سکتا ہے، نے پروفیسر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر عمار علی جان کی ایف سی کالج یونیورسٹی سے برطرفی پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے ایسے ایسے سفید جھوٹ بولے کہ جھوٹ بھی بغلیں جھانکنے لگا۔
انہوں نے پروفیسر ہودبھائی کو امریکی سفارت خانے کا ملازم قرار دے دیا۔ ثبوت؟ عمران خان کے کوئی دوست ہیں راشد خان نا م کے۔ ثبوت ان کے پاس پڑا ہے۔ صحافت کی ایسی درخشاں مثالیں تو ارناب گوسوامی بھی قائم نہیں کر سکا۔
لگ بھگ دس سال پہلے کی بات ہے حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک کے دوران عمران خان نے یہی بات پرویز ہود بھائی کے بارے میں کہی۔ اس مذاکرے میں پروفیسر ہود بھائی بھی شامل تھے۔ وقفے کے دوران جب پروفیسر ہود بھائی نے عمران خان سے غلط بیانی پر استفسار کیا تو عمران خان نے پروفیسر ہود بھائی پر حملہ کر دیا۔ بقول پروفیسر ہود بھائی انہوں نے جوانی میں باکسنگ سیکھی تھی اور اس موقعے پر انہوں نے فنِ باکسنگ کا خوب استعمال کیا۔
ہارون رشید عمران خان کے نظریاتی گرو تھے۔ سویڈن میں عمرز لا والا فسانہ بھی انہوں نے ہی عمران خان کو سنایا تھا۔ ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ سویڈن کے نام نہاد عمرز لا بارے میں آپ نے کہاں پڑھا یا سنا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ لندن میں مقیم ایک پاکستانی نژاد جج نے انہیں بتایا تھا۔ بلاشبہ صحافت میں ایسی درخشاں مثالیں ارناب گوسوامی تو کیا گوئبلز بھی قائم نہیں کر سکا۔
عمران خان کا فلسفہ سیاست اور ہارون رشید کا فلسفہ صحافت یہ ہے کہ اگر طاقت ور حلقے آپ کے پیچھے کھڑیں ہیں تو دل کھول کر جھوٹ بولو۔ سیاسی یا صحافتی ساکھ بے معنی چیزیں ہیں۔ یہی ہارون رشید تھے جنہوں نے اختر عبدالرحمن بارے ’فاتح‘ نامی کتاب لکھی تھی۔ ’فاتح‘ کا ایک بیٹا لاہور میں ڈالر خان کے نام سے مشہور تھا اور اس فاتح کے پس ماندگان پیپسی کولا کے ملک میں واحد ڈیلر ہیں۔ محقق احمد سلیم نے لکھا ہے کہ جنرل ایوب مرتے دم تک سی آئی اے سے پنشن لیتے رہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے مولوی امریکہ سے ڈالر لیتے رہے۔ ملک کی معیشت، سیاست اور غیرت امریکہ کے ہاں ستر سال سے گروی پڑی ہے۔ جن حکمرانوں نے پاکستان کو امریکہ کی لونڈی بنا دیا، وہ ہارون رشید کو فاتح نظر آتے ہیں مگر جو محنت کشوں، مظلوموں اور محکوموں کی بات کرتے ہیں وہ ایجنٹ ہیں۔
بات لیکن یہاں ختم نہیں کی جا سکتی۔ پروفیسر ہود بھائی اور ڈاکٹر عمار علی جان پر سی آئی اے، را اور خاد کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگانا ایک خطرناک کھیل ہے۔ اسی طرح اس پروگرام میں ہارون رشید نے پی ٹی ایم کو بھی سی آئی اے کی تخلیق قرار دے دیا۔ ایک ایسا صحافی جسے اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ سمجھا جاتا ہو، جس کا تعلق پنجاب سے ہو اور وہ لاہور میں بیٹھ کر پشتونوں، بالخصوص سابقہ فاٹا، کی سب سے مقبول سماجی تحریک کو ملک دشمن قرار دے…اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہے لسانی منافرت کا پرچار۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ گذشتہ روز ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پروفیسر ہود بھائی اورڈاکٹرعمار علی جان سے اظہار یکجہتی کے لئے دوستانہ پیغامات کاسیلاب امڈ آیا۔
پروفیسر ہود بھائی اور ڈاکٹر عمار علی جان ملک کی دو مقبول شخصیات ہیں۔ وہ اس معاشرے کا ضمیر ہیں۔ ہارون رشید جیسے لوگ بھلے ہی طاقتور ترین لوگوں کے پروردہ ہوں، سچ سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ طاقت، سرمایہ، ظالمانہ قانون، جبر…کچھ بھی سچ کو شکست نہیں دے سکتا۔
ہارون رشید نے جو کیا وہ صحافتی اور اخلاقی لحاظ سے ہی شرمناک نہیں بلکہ پاکستانی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ہارون رشید اور چینل 92 کے خلاف پیمرا قونین کے تحت بھی کاروائی ہو سکتی ہے۔ ان کے خلاف عدالت میں بھی قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔
اس بار امید ہے کہ ہارون رشید کو یہ جھوٹ بہت مہنگا پڑے گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔