ٹوبی ملر عالمی سطح پر میڈیا اور کلچرل اسٹدیز کے جانے مانے سکالر ہیں۔”گلوبل ہالی وڈ“ سمیت درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ توبی مِلر کی کتابیں دنیا بھر کی اہم یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور نیو یارک یونیورسٹی میں پڑھا چکے ہیں۔ ان دنوں میکسیکو کی پرولتاری یونیوسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔
روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر فاروق سلہریا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے عالمی میڈیا کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جو قارئین کی خدمت میں دو قسطوں میں پیش کی جا رہی ہے۔ پہلی قسط حاضر ہے:
جدوجہد: نوے کی دہائی میں کہا جا رہا تھا کہ ٹیلی ویژن نظام کی نجکاری سے تنوع آئے گا۔ جنوبی ایشیا میں تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف آزادی اظہار کم ہوا ہے بلکہ جنونی اور رائٹ ونگ بیانیہ مین سٹریم بن گیا ہے۔ آپ کی دنیا بھر کے رجحانات پر نظر ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے، بالخصوص لاطینی امریکہ کا تجربہ کیسا ہے؟
ٹوبی ملر: اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے بہت سے نان ریزیڈنٹ انڈینز جو کافی امیر بھی ہیں، بی جے پی، آر ایس ایس اور حکمران طبقہ بورژوا میڈیا کے ذریعے انتہائی رجعتی خیالات کو فروغ دے رہے ہیں۔ میڈیا بھی کھل کر مودی کی حمایت کر رہا ہے۔ دوسری طرف کرونا بحران کی کوریج کافی بری ہے۔
پاکستان سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں ڈیٹنگ سائٹ ٹنڈر بند کی جا رہی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم عمران خان برطانیہ میں سالہا سال رہے اور وہاں وہ پلے بوائے کے طور پر مشہور تھے اور اب اخلاقیات کے نام پر یہ ڈیٹنگ سائٹس بند کی جا رہی ہیں جس کی وجہ محض عمران خان کی اپنی رجعتی سوچ نہیں ہے بلکہ رائٹ ونگ حلقوں کو خوش کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آزادی اظہار کا پیمانہ ٹنڈر جیسی سائٹس ہیں مگر سیاسی آزادی کا ایک اہم اظہار جنسی آزادی ہوتی ہے اور اپنی جنسی آزادی کا اظہار کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔
نوے کی دہائی میں ڈی ریگولیشن کے جس بخار نے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اس بخار کی وجہ نیو کلاسیک معاشیات پر مبنی نظریات تھے جس سے سب واقف ہیں۔ سوچ یہ تھی کہ اگر منڈی میں مالی مقابلہ موجود ہے، بالخصوص میڈیا کے میدان میں، تو پھر مقابلے کے نتیجے میں تنوع جنم لے گا۔ یہ خیال محض ایک مفروضہ ہی ثابت ہوا۔
امریکہ کو دیکھئے جہاں مختلف ہالی وڈ سٹوڈیوز موجود ہیں۔ مقابلے کے نتیجے میں تنوع نے جنم نہیں لیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فلم پیراماؤنٹ نے بنائی ہو یا فوکس سٹوڈیو نے، فرق بتانا مشکل ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ فلم کس سٹوڈیو نے بنائی ہے۔
پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کا…میں ریاستی کنٹرول میں چلنے والے براڈ کاسٹنگ کی بات نہیں کر رہا…کا فائدہ یہ تھا کہ ایک پرانی طرز کے اخبار کی طرح ناظرین کو سب کچھ دیکھنے کو ملتا تھا۔ خبروں کے آخر میں موسم اور کھیل کی خبریں ہوتی تھیں۔ ملکی و عالمی خبریں نمایاں کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ملکی و بین القوامی ڈرامہ، کھیل، حالات حاضرہ…گویا سب کچھ ناظرین تک پہنچتا تھا۔
اب عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک نیٹ ورک کسی ایک ہی نوع کے پروگرام دکھاتا ہے۔ کوئی کھیل کا چینل ہے تو کوئی مذہب کا۔ کہیں ٹاک شوز ہیں جہاں صحافیوں کی بجائے ایسے لوگ بٹھائے جاتے ہیں جو چیخ و پکار کر سکیں مگر دوسروں کی نہ سنتے ہوں۔ ان کا کام ہے دانشوروں، سول سوسائٹی اور محنت کشوں کے نقطہ نظر کی نفی۔
وہ جو کہا جاتا تھا نہ ”وئیر ہاوس آف کلچر“ وہ والی بات ختم ہے۔ یہ ہے بنیادی مسئلہ۔ جب پبلک سروس براڈ کاسٹنگ تھی تو دیکھنے کو کچھ ہوتا تھا۔ دیکھئے ڈی ریگولیشن تنوع کا خاتمہ کرتی ہے۔
جہاں تک تعلق ہے لاطینی امریکہ کا تو یاد رہے وہاں ٹیلی ویژن کا سفر باقی دنیا کے بر عکس رہا۔ یہاں کبھی بھی دور درشن یا بی بی سی کی مانند ریاست کا کردار موجود نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لاطینی امریکہ سیاسی و معاشی، اسی طرح، ٹیکنالوجی اور پروگرامنگ کے لئے امریکہ کے زیرِ اثر تھایعنی (امریکی ٹیلی ویژن نظام کی نقالی کی گئی)۔
ہاں یونیورسٹیوں کے اندر پبلک سروس براڈ کاسٹنگ تھی مگر بہت محدود اور محض تعلیمی مقاصد کے لئے۔
ساٹھ کی دہائی سے لے کر نوے کی دہائی تک نجی چینلز فوجی آمریتوں کی جیب میں تھے۔ انہوں نے لوگوں تک معلومات کو نہیں پہنچنے دیا اور یوں آمریت کی خدمت سر انجام دی۔ برازیل جس کی آبادی بیس کروڑ ہے، چلی، پیرو…سب جگہ ایسا ہی تھا۔ کولمبیا کی مثال دلچسپ ہے۔ وہاں جو سیاست دان بھی ملک کا صدر بنا اس کا تعلق کسی میڈیا ہاؤس سے تھا۔ یا تو وہ کسی چینل اور اخبار کا مالک تھا یا اس کی اولاد۔
اس ضمن میں آخری نقطہ جو میں اٹھانا چاہتا ہوں وہ ہے بد عنوانی۔ یہاں بدعنوانی کرنے والے سیاستدانوں، جرنیلوں اور میڈیا مالکان کا طبقہ اور نسل ایک ہی ہے۔ سب ایک طرح سے رشتہ دار ہیں۔
جدوجہد: نجی چینل آنے کے بعد ایک رجحان یہ دیکھنے میں آیا کہ جنوبی ایشیا کا میڈیا بالکل مقامی بن کر رہ گیا ہے۔ آپ کے خیال سے ڈی ریگولیشن کی وجہ سے میڈیا پراونشل (Provincial) ہو گیا ہے؟
ٹوبی ملر: جنوبی ایشیا کے حوالے سے مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا…(مسکراتے ہوئے) یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ سی این این کے دفتر کا دورہ کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ سی این این میں کام کرنے والے صحافی دنیا بارے معلومات حاصل کرنے کے لئے سی این این انٹرنیشنل، سی این این ایشیا یا سی این این سپینش دیکھتے ہیں۔
یہاں میکسیکو میں امریکہ یا چین بارے (کیونکہ چین نے میکسیکو میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے) ایک دلچسپی پائی جاتی ہے۔ کلونیل تاریخ کی وجہ سے سپین کو بھی میڈیا کوریج ملتی ہے۔ تھوڑی بہت کوریج لاطینی امریکہ کے بڑے ممالک کی بھی نظر آ جاتی ہے۔ کبھی کبھار انڈیا مگر پاکستان، سری لنکا،ویت نام اور ایشیا کے دیگر چھوٹے بڑے مگر اہم ممالک بارے کوئی کوریج نظر نہیں آتی۔
رہی بات اینگلو ورلڈ (انگریزی بولنے والے ممالک) کی تو صورت حال یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کے برعکس (جہاں صحافیوں کو کئی زبانیں آتی ہیں) یہاں کے صحافیوں کو اؤل تو انگریزی کے علاوہ کوئی زبان آتی نہیں۔ اوپر سے ان کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے خیال میں باقی دنیا میں ہونے والے واقعات ان کے لئے اہم ہی نہیں ہوتے۔ میرے خیال سے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
اس ضمن میں آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوسرے کے مذاہب بارے بھی معلومات کی شدید کمی ہے۔ یہ جاننا ہی ضروری نہیں کہ کسی کے اپنے معاشرے میں ان کے مذہب کا کیا کردار ہے۔ مذاہب کے دوسرے معاشروں پر بھی اہم اثرات ہیں جنہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جدوجہد: آپ ان میڈیا سکالرز میں شامل ہیں جنہوں نے میڈیا امپیریل ازم کے موضوع پر تحقیق کی۔ آپ نے انٹرنیشنل ڈویژن آف کلچرل لیبر کی تھیوری پیش کی۔ شائد آپ بیس سال سے اس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گلوبلائزیشن نے انٹرنیشنل ڈویژن آف کلچرل لیبر کو کم کیا یا زیادہ؟
ٹوبی ملر: انٹرنیشنل ڈویژن آف کلچرل لیبر کا مطلب ہے کہ عالمی سطح پر کمیونی کیشن ٹیکنالوجی، کمیونی کیشن سسٹم اور میڈیا مواد پر کچھ ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ ایک ناہمواری پائی جاتی ہے۔ اسی طرح میڈیا اسٹڈیز اور میڈیا سکالر شپ میں مزدور کی نظر نہ آنے والی محنت، سکرین پر مزدوروں کی نمائندگی یا ٹیکنالوجی جس کی وجہ سے میڈیا ہم تک پہنچتا ہے…اس کے اندر مزدور کی محنت کا ذکر نہیں ملتا۔ انٹرنیشنل ڈویژن آف کلچرل لیبر کا کانسیپٹ (Concept) نہ صرف اس محنت بلکہ مزدوروں کے اوقات کار اور ماحولیات کی بات بھی کرتا ہے۔
ذرا سوچئے کہ پاکستان کرکٹ بیٹ بنانے کے لئے مشہور ہے۔ ٹینس بال بنگلہ دیش اور پاکستان میں بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہا ں کرکٹ اور ٹینس کھیلے جاتے ہیں، وہاں ٹرانسپورٹیشن کے تمام تر اخراجات کے باوجود امیر لوگ سستے داموں بیٹ اور ٹینس بال سے کھیلتے ہیں۔ مزدوروں کا استحصال تصویر سے غائب ہو جاتا ہے۔
یہی کچھ میں نے ثابت کیا ہے کہ ٹیلی ویژن اور فلم کی پروڈکشن میں بھی ہوتا ہے۔ جس کو ہالی وڈ فلم کہا جاتا ہے اس میں سرمایہ کاری نیو یارک سے کی جاتی ہے۔ اس کی پروڈکشن لاس اینجلس میں ہوتی ہے۔ فلمنگ کہیں کینڈا، برطانیہ یا آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔
میکسیکو کی مثال لیجئے۔ یہاں جرمن آبا و اجداد کی وجہ سے کچھ لوگ ایسے کمرشلز میں کاسٹ کئے جاتے ہیں جس میں مغربی کرداروں کو پیش کرنا ہوتا ہے (کیونکہ یہ میکسیکن سستے داموں مل جاتے ہیں مگر گورے نظر آتے ہیں)۔
ادھر کینڈا یا دیگر ممالک ہالی وڈ کو اپنے ہاں بلانے کے لئے ٹیکس میں چھوٹ دیتے ہیں۔ بہترین ورک فورس بھی مل جاتی ہے جو یونین میں منظم نہیں ہوتی۔ ہالی وڈ میں، تاریخی وجوہات کی بنا پر، ٹریڈ یونین بالخصوص ٹیلی ویژن مگر عمومی طور پر فلم پروڈکشن میں بھی کافی مضبوط ہے۔
یوں عالمی سطح پر لیبرکا استحصال کیا جاتا ہے۔
ایک اور رجحان جو دیکھنے میں آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم لوگ جو سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور اس طرح کی الیکٹرونکس پراڈکٹس استعمال کر رہے ہیں، ان میں استعمال ہونے والی دھاتوں کو کانوں سے نکالنے میں، مثلاً کانگو کے اندر، چائلڈ لیبر استعمال ہو رہی ہے یا ایسی خواتین مزدوروں سے محنت کرائی جا رہی ہے جن کا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے۔ چین میں جن فیکٹریوں میں یہ سمارٹ فون بن رہے ہیں، وہاں مزدوروں کے حالات اتنے برے ہیں کہ مزدور خودکشیوں پر مجبور ہیں۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جب ان الیکٹرونک پراڈکٹس کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو ری سائیکلنگ کے لئے انہیں انڈیا، پاکستان، برازیل، میکسیکو یا ملائشیا بھیج دیا جاتا ہے جہاں یہ ماحولیات کے لئے ایک مسئلہ ہیں اور جہاں کم عمر بچیاں اس شعبے میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
قصہ مختصر، یہ ہالی وڈ ہو یا کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ…یہ ڈرٹی انڈسٹریز ہیں۔ پچھلے تیس سال میں دن بہ دن یہ بات زیادہ سامنے آئی ہے کہ گلوبل سطح پر کلچرل اور ابلاغیاتی مصنوعات بغیر عالمی سطح پر لیبر کا استحصال کئے پیدا نہیں ہوتیں۔
(جاری ہے)