قیصرعباس
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہویا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
سوشل میڈیا اور ویڈیو ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہماری یادداشت موسیقی کی دھنوں میں ترتیب دی گئی غزلوں تک محدود ہے مگر ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ ان مدھر آوازوں میں ڈھلے الفاظ کے خالق کون ہیں۔اس غزل کا بھی یہی حال ہے جسے حبیب ولی محمد اور دوسرے گلوکاروں نے موسیقی کے پیرائے میں ڈھال کر امر کر دیا لیکن سننے والوں نے اس کلام کے خالق کا نام تک نہیں یادرکھا۔ اس غزل کے شاعرمعین احسن جذبی ہیں جو اپنے زمانے کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے۔ غزل کے مقطع میں بھی شاید وہ دنیا کی اسی بے رخی کی شکایت کررہے ہیں:
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ حبیب ولی محمدنے بھی غزل کے اس آخری شعر میں شاعر کا نام حذف کرکے ”اے دل“ کا اضافہ کردیا یاشاید انہیں بھی یاد نہیں تھا کہ کلام کا خالق کون ہے یا وہ شاعر کو اس غزل کا کریڈٹ نہیں دینا چاہتے تھے۔
معین احسن جذبی تر قی پسندا ردوا دب کے ایک ممتازشاعر تھے۔ انہوں نے غزل اور نظم دونوں میں مشق سخن جاری رکھی لیکن کلاسیکی روایات کو زندہ رکھنے ہوئے ترقی پسند نظریات کی براہ راست ترویج کے بجائے بالواسطہ تشبییہات اور اشاروں کا استعما ل کیا اور یہی ان کی شاعری کی خصوصیت تھی۔ لیکن غزل نے ان کو جو شہرت عطا کی وہ نظم نہ دے سکی جس میں انہوں نے غزل کی روایات کو برقرار کھتے ہوئے اپنے عہد کے مسئلوں کوزبان کے نئے زاویوں کے ساتھ شاعری میں ڈھالا۔
جذبی (2005-1912)یوپی میں پیدا ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کے بعد وہیں اردو ادب کے شعبے میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ معروف ترقی پسند دانشوروں علی سردار جعفری اور سبط حسن نے انہیں ترقی پسند ادب سے روشناس کرایا اور لکھنے کی ترغیب دی۔ بعدازاں ”حالی کا سیاسی شعور“ کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالے پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی گئی۔ ’فروزاں“،”سخن مختصر“اور ”گدازشب“ا ن کے مجموعہ کلام ہیں۔
’گدازشب“ میں شامل ان کی نظم ”میرا ماحول“ ساخت کے اعتبار سے تو غزل کے زمرے میں آئے گی لیکن موضوع کے لحاظ سے ایک نظم ہے کہ اس میں ایک مکمل اور مربوط خیال موجودہے جو شروع سے آخر تک اپنے اردگرد کے ماحول کا نوحہ پیش کررہاہے مگر یہ تو صرف ساخت کا مسئلہ ہے، اہم تو اس کلام کا مرکزی تصورہے، معاشرے میں ادبی شعور کی بے مائیگی، محبت اور انسانی خوشیوں کی کمیابی۔ اس نظم کی بنیاد ان ہی تخیلات پر رکھی گئی ہے:
میراماحول
یہاں ہے حفظِ کتب پر مدارِ فضل وکمال
یہاں رسائیِ فکرونظر کی قیمت کیا
یہاں ہے عقلِ فرومایہ محوِ سنگ زنی
یہاں جنوں کے گراں مایہ سر کی قیمت کیا
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو
خزاں پرستوں میں گلہائے تر کی قیمت کیا
یہاں دکھاؤ نہ اپنی متاعِ خون جگر
خذف پسندوں میں لعل و گہر کی قیمت کیا
یہاں ہے طول کلامیِ نثر کا سکہ
یہاں مرے سخنِ مختصر کی قیمت کیا
زمانہ سازی کے انداز سیکھ لو جذبی
یہاں خلوص و گدازِ ہنر کی قیمت کیا
پہلے مصرعہ میں شاعر لوگوں کے علمی اور ادبی ذوق کا گلہ کررہاہے جو صرف کتابوں کوحفظ کرنے میں خوش نظر آتے ہیں اور متن کے سیاق وسباق کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ فکرونظر کے عمیق دائرے ان کے ادراک سے باہر ہیں۔ علم وہنر کی بے مائیگی کا گلہ کرتے ہوئے یہاں جذبی لوگوں کے سطحی علم کو نشانہ بنارہے ہیں۔
عقل کے ترازو میں جنوں کے گراں مایہ سرمائے کو تولتے ہو ئے لوگ جذبوں اورالتفات کی قدر نہیں کرتے۔ یہاں شعر سنانا اور شعر کہنا ایسا ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔ اس غزل کا پس منظر 1954 کا دور ہے جب کچھ حلقوں میں نظم کی جگہ نثر کو ترجیح دی جانے لگی اور خیال کے رنگین دریچوں میں عشق و محبت کی جگہ سطحی زندگی کے خشک زاروں میں صحرانوردی کو اہمیت دی جانے لگی۔غزل اور نظم کے ایک باکمال شاعر کی حیثیت سے انہیں شاعری سے ناروا سلوک ناگوارگزرا۔
تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی جذبی کا یہ کلام ہمارے معاشرے کے کئی گوشوں کو طشت ازبام کررہا ہے جہاں صرف نصاب کی کتابوں کو حفظ کرنا ہی حصول علم کی معراج ہے اور فکرو نظر کے انسانی پہلوؤں، اخلاقی اور تہذیبی معیاروں کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سائنس کے اس دور میں عمرانیات، اخلاقی اقدار اور انسانی تعلقات بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ اخلاقی اور انسانی قدروں کی قدرو منزلت کے بجائے معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پارہی ہے اور بھائی چارے کی جگہ ہر چیز کو تنگ نظری کی عینک سے دیکھا جارہاہے۔ شعر وادب کے گرتے ہوئے معیار پر جذبی کا تبصرہ آج بھی اسی طرح درست نظرآتا ہے جس طرح ستر سال پہلے تھا:
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو
خزاں پرستوں میں گلہائے تر کی قیمت کیا
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔