فاروق سلہریا
لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ چھ دن کے بعد تو کیا اب چھ ماہ تک بھی پی ٹی آئی کسی نام نہاد لانگ یا شارٹ مارچ کی ہمت نہیں کرے گی (ہاں البتہ عمران کان موجودہ حکومت کو غیر متزلزل کرنے کے لئے اقدامات جاری رکھیں گے)۔ ریاستی جبر کی ہلکی سے جھلک، ٹیلی ویژن اسکرین پردیکھ کر ہی، مڈل کلاس پر مبنی قوم یوتھ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ریاستی جبر کا سامنا کرنے کہ ہمت صرف محنت کش طبقے، ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور ان کے قائدین نے ہی دکھائی ہے۔ اس وقت مزاحمت کی کوئی علامت ہے تو وہ علی وزیر ہے۔
ادہر لانگ مارچ، جسے ڈانگ مارچ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا، ناکام ہوا، ادہر موجودہ حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے معاشی ایجنڈے میں کوئی فرق نہیں۔ موجودہ حکومت جو پہلے دن سے ڈانواڈول ہے، اس فیصلے کے بعد مزید لڑکھڑا گئی ہے۔ یہ حکومت چھ ماہ نکالے گی یا چھ ہفتے، یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
اب الیکشن ہوں یا عبوری حکومت کے نام پر کوئی نئی نوٹنکی سجائی جائے، بحران در بحران سے نکلنے کی صلاحیت موجودہ حکمران طبقے کے کسی دھڑے کے بس میں نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ معاشی بحران ہے جس کا حل ریڈیکل اقدامات کا تقاضہ کرتا ہے۔
جب تک قرضے دینے سے انکار، امیر طبقے کی سبسڈی (جو ڈیڑھ کھرب روپے کے لگ بھگ ہے) اور فوجی بجٹ میں زبردست کٹوتی نہیں ہوتی معیشیت سنبھلنے کا نام نہیں لے گی۔ ایک طرف فوج میں مارشل لا لگانے کی ہمت نہیں ہو رہی تو دوسری طرف تینوں مین اسٹریم جماعتیں حکومت سے جانے کی بجائے حکومت میں آنے سے گھبرا رہی ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ایک دن پاکستان کو سری لنکا بنا دے گا۔ عوام کا پیمانہ صبر کس دن لبریز ہو گا، کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ بقول اصغر گونڈوی:
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے، خود برباد ہوتا ہے
یہ بات بہرحال طے ہے کہ عوام کی بے چینی سے حکمران طبقے کا ہر حصہ خوفزدہ ہے۔ اب لڑائی صرف یہ نہیں کہ اگلا فوجی سربراہ کون ہو گا۔ اب لڑائی یہ بھی ہے کہ معیشیت کی تین بڑی جونکوں (غیر ملکی قرضے، فوجی بجٹ اور اشرافیہ کی سبسڈی) کا کیا کیا جائے۔
فوج چاہے گی کہ فوجی بجٹ میں کٹوتی نہ ہو۔ اس لئے موجودہ حکومت پر دباو ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط مانو۔ موجودہ حکومت میں بھی جرات نہیں کہ فوج کے بجٹ پر بات کرے لیکن انہیں معلوم ہے کہ پیٹرول ہو یا آٹا، کسی بھی بنیادی عوامی ضرورت کی جنس میں ایک پائی کا اضافہ بھی ان کے ووٹ کم کر دے گا۔ گذشتہ دنوں بعض تعیشات کی درآمد پر ٹیکس لگا کر کوئی درمیانی مگر وقتی راستہ نکلانے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ تجارتی خسارہ کم ہو۔ تجارتی خسارہ تو بحران کی محض ایک شکل ہے، اس کی وجہ نہیں۔ اشرافیہ کی حکومت اشرافیہ کی سبسڈی ختم کرنے سے قاصر ہے۔ اس لئے دائروں کا سفر جاری ہے لیکن عوام مزید چکر کاٹنے پر تیار نہیں۔
اس قدر شدید بحران 1971ء کے بعد پہلی دفعہ درپیش ہے جو پچھلی سات دہائیوں کی عوام دشمن پالیسیوں کا مجموعہ ہے۔ بحران جس قدر شدید ہے، بحران کا حل بھی اتنے ہی ریڈیکل متبادل کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ متبادل ایک سوشلسٹ پلیٹ فارم کی شکل میں ہی سامنے آ سکتا ہے۔ یہ متبادل اس وقت عوامی شعور کا حصہ نہیں مگر بن ضرور سکتا ہے۔ سوشلسٹ قوتوں کو اس وقت سرگرمی دکھانا ہو گی۔ کوئی نیاتنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینا ہو گا جو ملکی سطح پر موجود ہو۔ امکانات موجود ہیں۔ امکانات کو حقیقت کی شکل دینا ہی اس وقت بائیں بازو کا بھی اصل امتحان ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔