راولاکوٹ (نامہ نگار) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر بھر کے ڈاکٹروں نے وزیر اعظم تنویر الیاس کی جانب سے استعمال کی جانیوالی زبان اور دھمکیوں پر معافی مانگنے تک ہڑتال جاری رکھنے کے علاوہ جموں کشمیر و پاکستان بھر میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کو پروٹوکول ہیلتھ سروسز مہیا کرنے سے انکار کرنے کے علاوہ الفاظ واپس نہ لئے جانے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے اور ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
یہ اعلانات جمعہ کے روز ڈاکٹروں کی جائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین و مرکزی صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر واجد علی خان نے دیگر عہدیداران ڈاکٹر عبدالقدوس، ڈاکٹر عمر، ڈاکٹر دانش (وائی ڈی اے)، ڈاکٹر ندیم، ڈاکٹر امتیاز، ڈاکٹر شاہد، ڈاکٹر کاوش، ڈاکٹر ذیشان، ڈاکٹر کیا خور کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کئے۔
قبل ازیں جمعرات کے روز بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم تنویر الیاس نے ڈاکٹروں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیا تھا، انہوں نے ڈاکٹروں کو دہشت گرد، بلیک میلر، مافیا، قصائی اور قاتل قرار دینے کے علاوہ دیگر تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں بدمعاش قرار دیا تھا۔ وزیر اعظم نے ڈاکٹروں کو ہڑتال ختم کرنے کی سختی سے ہدایت کرتے ہوئے ہڑتال ختم نہ کرنے کی صورت گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر آفتاب نے ایک سرکلر بھی جاری کیا، جس میں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے، انکی تنخواہیں کاٹنے کے علاوہ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کرنے والے ڈاکٹروں کی ٹریننگ اور ہاؤس جاب ختم کرنے کے علاوہ لازمی سروسز ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی کئے جانے کا انتباہ جاری کیا گیا تھا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر واجد علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم نے اسمبلی کے فلور پر ڈاکٹروں کو نہ صرف دہشت گرد کہا بلکہ ان کے خلاف ہتک آمیز، غیر پارلیمانی زبان استعمال کی گئی جو ناقابل برداشت ہے، ہم لاوارث نہیں کہ کوئی ایسی زبان استعمال کرے، ہمیں جواب دینا خوب آتا ہے، لیکن ہماری تربیت ایسی نہیں کہ ہم بھی ویسی ہی زبان استعمال کریں۔ ہم عزت، وقار اور اپنی ساکھ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہم دھمکیوں سے قطعی مرعوب نہیں ہوں گے اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت دیں گے کہ وہ ڈاکٹر کمیونٹی کے خلاف ہرزہ سرائی کرے۔ ڈاکٹروں کو ڈرانے، دھمکانے کیلئے منفی اور روایتی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں، جس سے ہم پوری طرح واقف ہیں لیکن ہم ذمہ داران کو یہ باور کروا دینا چاہتے کہ ہم ڈراؤ دھمکاؤ سے اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اپنے مطالبات تسلیم ہونے اور ان کے نوٹیفکیشن کے اجرا تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
تاہم انکا کہنا تھا کہ ایمرجنسی سروسز مہیا کریں گے، کورونا کے خلاف جنگ میں ڈاکٹروں نے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر پوری قوم کو اضطرابی کیفیت سے نکالا۔ اس دوران ہیلتھ پروفیشنلز نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر مشکل اور کٹھن صورت حال سے قوم کو سہارا دیا۔ آج حکمرانوں اور بیورو کریسی کو ڈاکٹروں کی خدمات اور جدوجہد کیسے بھول گئی۔ ڈاکٹروں نے حفاظتی سامان کے بغیر، بے سر و سامانی کے عالم میں قربانیاں پیش کیں، جس کا پوری دنیا میں اعتراف کیا جاتا ہے لیکن ہمارے حکمران طبقات کی محض اپنے مفادات کے تحفظ اور اختیارات کا خمار ہے، ہم ڈاکٹرز کے خلاف ہونے والی ہرساز ش کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹروں کے مطالبات کو حکومت نے جائز قرار دیتے ہوئے تین ماہ قبل 29 مارچ کو ایک تحریری معاہدہ کیا تھا۔ جس میں یہ طے پایا گیا تھا کہ بجٹ میں ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے تمام مسائل کو یکسو کیا جائے گا۔ مذکورہ معاہدہ پر ڈاکٹروں کے نمائندوں کے علاوہ وزیر صحت نثار انصر ابدالی اور ڈی جی صحت ڈاکٹر آفتاب کے دستخط بھی موجود ہیں۔ تاہم بجٹ میں شعبہ صحت سے متعلق تسلیم کئے گئے مطالبات کو شامل کرنے کی بجائے نظر انداز کئے جانے پر ڈاکٹروں نے دوبارہ ہڑتال کا آغاز کیا تھا، جس پر وزیر اعظم سیخ پا ہو گئے۔
ڈاکٹر واجد کا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد اور احتجاج اپنے لئے نہیں بلکہ اس ریاست کے غریب لوگوں اور عوام کیلئے ہے، مریضوں کی دیکھ بھال خدمت کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمارے مطالبات میں تمام چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی، لیبارٹریز کا قیام، ڈاکٹرز، سٹاف کی کمی کو پورا کرناشامل ہیں۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کے مطابق ہمیں بھی مراعات دی جائیں اور ہمارے سروس سٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ ان مطالبات سے حکومت نے اتفاق کرتے ہوئے معاہدہ کیا جس کی اب خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ہم حکومت کو اپنے وعدے یاد دلانا چاہتے ہیں۔ ہم نے حکومت کی مشکلات، مالی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بجٹ تک اپنی ہڑتال موخر کی تھی لیکن ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ حکومت کی ان چال بازیوں اور خلاف ورزیوں کے خلاف آزادکشمیر بھر میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹروں کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ حکمران طبقات، بیورو کریسی کو اپنی تنخواہیں، مراعات اور الاؤنسز بڑھاتے ہوئے کم از کم اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ وزیر اعظم نے ڈاکٹروں پر جو الزامات لگائے ہیں، وہ ثابت کریں اور اگر کہیں کوئی ایسی شکایت ہے تو اس کی نشاندہی کریں۔ محض الزامات لگانا ایوان میں بیٹھے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔
ڈاکٹروں نے واضح کیا کہ اب کسی سے رابطہ نہیں کریں گے، نہ ہی کسی سے بھیک مانگیں گے اور نہ ہی بلیک میل ہوں گے۔ ہم اپنا حق لے کر رہیں گے۔ ڈاکٹرز کمیونٹی متحد و منظم ہے اور آنے والے دنوں میں یک جہتی کیلئے پاکستان بھر سے ڈاکٹروں کی تنظیمیں ہماری پشت پر ہوں گی۔