فاروق سلہریا
اس مضمون کے آخری حصے میں اس بات پر بحث کریں گے کہ پاکستان میں بائیں بازو کا موقف کیا ہونا چاہئے؟
۱۔ اس سوال کا جواب عملی طور پر بایاں بازو دے چکا ہے: مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے، نہ مذہب کا سیاسی استعمال کرو، نہ مذہب پر تنقید کرو۔
بائیں بازو کے مخالفین اکثر یہ ’تجزیہ‘ پیش کرتے ہیں کہ پاکستان میں بائیں بازو کی ’ناکامی‘ کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مذہب دشمن تھے۔ اس سے زیادہ شرمناک تجزیہ ممکن نہیں۔ اؤل تو یہ کہ بائیں بازو کو ناکام قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ جب ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو رائے دہندگان نے ایسی جماعتوں (عوامی لیگ، پی پی پی، اے این پی) کو ووٹ دیا جو خود کو سوشلسٹ بنا کر پیش کر رہی تھیں (وہ سوشلسٹ تھیں یا نہیں، علیحدہ بحث ہے)۔ حالت یہ تھی کہ مسلم لیگ (دولتانہ) نے بھی اپنے انتخابی منشور میں سوشلزم کا وعدہ کر رکھا تھا۔ جب تک طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے رہے، کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے راولپنڈی تک، سوشلسٹ طلبہ تنظیمیں ہر سال انتخابات جیتتی رہیں۔ ٹریڈ یونین یا وکیلوں صحافیوں اور ڈاکٹروں کی ملگ گیر تنظیموں یا ایسی دیگر پروفیشنل تنظیموں کے انتخابات اور ریفرنڈم بھی بایاں بازو بھاری اکثریت سے مسلسل بنیادوں پر جیت رہا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ بایاں بازو موجودہ حالات میں ایک چھوٹی قوت ہے۔ یہ نوبت کیوں آئی، اس کی بے شمار وجوہات ہیں لیکن بائیں بازو کی مبینہ ’مذہب دشمنی‘ اس کی وجہ نہیں ہے۔ سامراج نے مولوی کے ساتھ مل کر پوری مسلم دنیا میں یہ پراپیگنڈہ کیا کہ مارکسزم مذہب بیزار ہے وغیرہ وغیرہ۔
ملکی تاریخ میں درجنوں سیاسی جماعتیں سوشلزم اور مارکسزم کے نام پر وجود آئیں۔ اِس وقت بھی درجن بھر گروہ ملک میں مارکس واد کا دم بھرتے ہیں۔ کسی ایک نے کبھی کسی بھی مذہب پر اپنے کسی پالیسی بیان یا پروگرام پر سیکولرزم سے ہٹ کر کوئی موقف لیا ہو تو اس کی نشاندہی بریکنگ نیوز ہو گی۔ اسی طرح، کبھی کسی جماعت نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ اس کی رکنیت کے لئے ملحد ہونا ضروری ہے۔ اگر بائیں بازو نے کبھی تنقید کی تو اس بات پر کی کہ مذہب کا سیاسی استعمال غلط ہے، یہ استعمال دایاں بازو کرے یا بایاں بازو یا پیپلز پارٹی جیسی ملغوبہ جماعت۔
۲۔ بایاں بازو مذہب کے سیاسی استعمال کے لئے بنیادی طور پر دو وجوہات کی بناپر خلاف ہے۔ اس کی ایک تو اسٹریٹیجک وجہ ہے۔ اگر بایاں بازو مذہب کو استعمال کرے گا تو اس کا فائدہ مذہبی بنیاد پرستوں کو پہنچے گا۔ بھٹو (عہد) کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مزدور طبقہ سوچے گا کہ اگر مسئلے کا حل اسلام ہے تو پھر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بلکہ طالبان سب سے بہتر مسلمان ہیں۔ ’لبرل فاشسٹ‘ قسم کے، مغرب زدہ مرد و خواتین کا ساتھ کیوں دیا جائے۔ دوسری وجہ نظریاتی ہے۔ مذہب مزدور طبقے کو تقسیم کرتا ہے۔ سوشلزم عالمگیریت پر یقین رکھتا ہے۔ سوشلزم کا تو پہلا نعرہ ہی ’دنیا بھر کے مزدورو! ایک ہو جاؤ‘ ہے۔ سو مذہب کا استعمال عالمگیریت کی نفی ہے۔
اسی طرح، قومی سطح پر، جہاں اکثریت ایک مذہب کی ہو، وہاں مذہب فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے کیونکہ ہر مذہب میں فرقے موجود ہیں۔ اگر پاکستان کی مثال دی جائے تو یہاں لگ بھگ بیس فیصد آبادی شیعہ ہے۔ پھر ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ اور ایتھیسٹ بھی ہیں۔ پھر یہ کہ مذہب عورت اور مرد میں تفریق کرتا ہے۔ دنیا کا لگ بھگ ہر بڑا مذہب ذات پات یا غلامی کا قائل ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ مذہب سے اپنی مرضی کی چیزیں لے لیں، باقی رد کر دیں۔
اس لئے سوشلسٹ چاہتے ہیں کہ مذہب کو نجی معاملہ رہنے دیا جائے۔ ریاست لوگوں کے عقیدے نہ جانچتی پھرے۔ نہ ہی معاشرے کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں پر عقیدوں کے حوالے سے فتوے جاری کرے۔
۳۔ کیا پاکستان جیسے مذہبی ملک میں جہاں مذہب کی اتنی گہری جڑیں ہیں، وہاں بائیں بازو کو سیکولر رہنا چاہئے؟ کیوں نہ بھٹو کی طرح مذہب کو استعمال کیا جائے؟ اؤل تو اس کاکسی حد تک جواب گذشتہ نکتے میں دیا جا چکا ہے۔ دوم، اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست مجاریٹیرین ازم (Majoritarianism) کہلاتا ہے (جو بی جے پی بھارت میں کر رہی ہے) جس کے نتیجے میں اتھاریٹیرین ازم تو آ سکتا ہے، جمہوری سوشلزم نہیں۔
پھر یہ کہ پاکستان میں جمعیت علمائے سندھ (جو شاہ عنایت کی روایت سے خود کو جوڑتی ہے) یا ایران میں مجاہدین خلق اور فدائین نے بھی اسلامی سوشلزم کی بات کی مگر وہ مین اسٹریم نہیں بن سکے (جنوبی یمن اور افغانستان میں تو ’کیمونسٹ‘ حکومتیں مذہب کا استعمال کر کے نہیں بچ سکیں)۔ کوئی سیاسی گروہ، وہ دائیں بازو کا ہو یا بائیں بازو کا، محض پروگرام کی بنیاد پر مین اسٹریم نہیں بن جاتا۔ موضوعی و معروضی حالات کا موافق ہونا بنیادی شرط ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بایاں بازو ایک چھوٹی قوت ہے، وہ مذہب کا چوغہ پہن لینے سے موقع پرست تو کہلا سکتا ہے، ترقی نہیں کر سکتا۔ بایاں بازو اکثریت کے پیچھے نہیں چلتا، اکثریت کو اپنے پیچھے لاتا ہے۔ اس کے لئے کام کرنا چاہئے۔ شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈنے چاہئیں۔
۴۔ اوٹو باور نے بائیں بازو کے طریقہ کار کو بہترین طریقے سے بیان کر دیا تھا: مولوی طبقہ ہر سیکولر اور سیاسی مسئلے کو مذہبی بنا دیتا ہے۔ مارکس وادیوں کا کام ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کو سیکولرائز کریں…ورنہ ایران کی طرح منہ کے بل گریں گے۔
۵۔ لیکن کیا ہر مذہب میں کچھ ترقی پسند اور انقلابی روایات نہیں ہوتیں جنہیں بائیں بازو کی سیاست میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ اؤل تو یہ تشریح کی بات ہے کہ مذہب میں کیا انقلابی ہے، کیا رجعتی۔ اس تشریح سے مذہبی فرقے تو جنم لے سکتے ہیں، سوشلزم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں بلاسفیمی قانین موجود ہیں، وہاں مذہبی بحثوں میں الجھنا اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ مذہب کی تشریح پر مولوی کی اجارہ داری رہے گی…عورت مارچ کرنے والوں اور یوم مئی منانے والوں کی تشریح کو کوئی نہیں مانے گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔