تاریخ


صحافت کا پہلا اور آخری سبق: ڈاکٹر مہدی حسن کی یاد میں

ان کی پوری زندگی جراتِ اظہار، تحمل اورپیشہ وارانہ دیانتداری کا نمونہ تھی۔ جراتِ اظہار ایسی کہ ہر آمر کے سامنے نعرہ حق بلند کیا اور اس کے لئے سختیاں تک برداشت کیں، جیل بھی گئے اور ملازمت سے ہاتھ بھی دھوئے۔ وہ سچ کو صحافت کی پہلی شرط قرار دیتے تھے۔ تحمل ایسا کہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں تمام زیادتیوں اور حریفوں کے استحصال کو پامردی سے برداشت کیا۔ ہم نے انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ جب کبھی غصہ آتا چہرہ سرخ ہو جاتا اور خاموش نظر آتے۔

لال خان تم نہیں رہے پر یہ لڑائی تو ہے!

کامریڈ لال خان کے فکری اور عملی کام کو کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ کامریڈ لال خان ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی تعمیر کی گئی سرخ انقلابیوں پر مشتمل فوج موجود ہے، جو اگر درست نظریات اور حکمت عملی پر کاربند رہی تو آنے والے وقت میں شروع ہونے والی طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ لال خان ہم میں نہیں ہیں لیکن جب تک طبقات موجود ہیں، امیر اور غریب کی تفریق موجود ہے، یہ لڑائی تو ہے۔ ان کی زندگی کا پیغام ہے کہ طبقاتی جنگ کی تیاری کو تیز کرو، انقلابی نظریات کو محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں تک پہنچاؤ، ایک فیصد طبقے کی حاکمیت کا خاتمہ کر کے محنت کشوں کوسرمائے کی ان زنجیروں سے آزاد کرو۔

مقبول بٹ سے ایک تصوراتی ملاقات کا احوال

مقبول بٹ شہید کے ساتھ محبت، عشق اور عقیدت رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقبول بٹ کی شخصیت کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کے لئے ان کے فرمودات اور تحریروں کا مطالعہ کریں اور ان کے نام سے وہ جملے منسوب نہ کریں جو انہوں نے کبھی ادا ہی نہیں کئے نہ کہیں لکھے۔

مقبول بٹ شہید

”سچ یہی ہے کہ میں نے مذہبی رجعتی عناصر، غلامی، سرمایہ دارانہ نظام، استحصال، بدعنوانی، ظلم اور منافقت کے خلاف بغاوت کی ہے۔ بھارتی حکمران اور پاکستانی جرنیل افسر شاہی کشمیر کو لمبے عرصے تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر نہیں رکھ سکیں گے۔ ہمارے لئے آزادی کے معنی صرف بیرونی قبضے کا خاتمہ نہیں ہے۔ ہمیں غربت، بھوک، جہالت، بیماری اور رجعتی عناصر سے آزادی درکار ہے۔ معاشی اور سماجی محرومی سے چھٹکارا حاصل کر کے ہم آزادی لے کر رہیں گے“ (مقبول بٹ شہید , لاہور ہائی کورٹ 1973ء)۔

پنجاب میں جبری ہجرتیں اور کسان تحریک کی تباہی

بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پنجاب میں انیسویں اور بیسویں صدی میں چار بڑی جبری ہجرتیں ہوئی ہیں جنھوں نے نہ صرف لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی پہ مجبور کیا بلکہ زمینداری سے متعلق تنازعات کو بھی جنم دیا۔

الوداع شہناز

ان کی زندگی کی کہانی بھی انتہائی انسپائرنگ ہے۔ اسی کی دہائی میں وہ منڈی بہاؤالدین سے پنجاب یونیورسٹی پڑھنے کے لئے آ گئیں۔ اس دور میں چھوٹے شہروں کی کم ہی لڑکیاں یہ ہمت کرتیں۔ بلاشبہ ان کے والدین کی حمایت بھی ایک وجہ تھی۔ بیٹیوں کی تعلیم کے سوال پر ان کے والد کو اپنے خاندان کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔ اس سب کے باوجود شہناز اقبال نہ صرف لاہور پڑھنے پہنچ گئیں بلکہ ایم اے کرنے کے بعد، منڈی بہاؤالدین واپس جانے کی بجائے لاہور میں ہی نوکری شروع کر دی۔

باچا خان بے مثال

اپنے ہم عصر اور اپنے بعد آنے والے مفکرین، مصلحین اور سیاسی رہنماوں کے مقابلے پر باچا خان چار وجوہات کی بنا پر ممتاز ہیں۔ اؤل، وہ سامراج مخالف ہی نہیں جدت پسند بھی تھے۔ دوم، ان کی پشتون شناخت اور کل ہند سیاسی شناخت سے کوئی تضاد نہیں تھا۔ سوم، ان کی سیکولر سیاست اور اسلامی اقدار میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ آخری بات، وہ اپنی جنگجو میراث سے تائب ہو کر عدم تشدد کے راستے پر چل پڑے۔

بے نظیر سے ہوئی ملاقاتیں اور یادیں

جب 1992ء میں وہ لاہور میں خالد جاوید جان کی کتاب ’میں باغی ہوں‘ کی رونمائی کے لئے آئیں تو ہال کے باھر ہمارا جدوجہد کاسٹال لگا ہوا تھا۔ میں ابھی پہنچا نہ تھا کہ وہ سٹال پر تشریف لائیں میرا پوچھا اور پھر لیون ٹراٹسکی کی ایک کتاب ”فاشزم کیا ہے، اس سے کیسے لڑا جائے“ جس کا ترجمہ خالد جاوید جان نے ہی کیا تھا، کی تما م پچاس کاپیاں اور درجنوں دیگر کتابیں خریدیں۔

تاریخ کو کیسے سمجھا جائے؟

آج ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے،وہ حکمرانوں کی تاریخ ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس کو فاتحین نے درباریوں سے لکھوایاہے اور آج ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ دربار کے دلالوں کے ان صحیفوں پر ایمان لایا جائے۔ ان سے تاریخ نے انتقام لیا ہے اور مستقبل میں بھی تاریخ کذابوں سے کڑا امتحان لے گی اور ان کی چمکتی ہوئی تصانیف،جن کو آج باعث فخر سمجھ کر شاہوں سے اعزازات لیے جاتے ہیں، تاریخ کا کچرا دان ان کا مقدر ہے۔اور سرمایہ داری کی موت سے ایک ایسے سماج کا جنم ہوگا،جہاں انسانی تحقیق اور شعور کی راہیں منافع کے زہر سے آلودہ نہیں ہوں گی اور انسانیت حقیقی معنوں میں کائنات کی تسخیر کے عمل کو ممکن بنا سکے گی۔

جنرل مشرف کو رخصت کرانے والا ’مہمان‘ رخصت ہوا

عارف شاہ پروہنا ایوب آمریت کے خلاف چلنے والی عوامی انقلابی تحریک میں سوشلسٹ خیالات سے متاثر ہوئے۔فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے مگر فوج چھوڑ کر ایوب آمریت کے خلاف تحریک میں شامل ہو گئے۔ہمیں اکثر ایک واقعہ سناتے تھے:”میں جب جلسوں میں جانے لگا تو میرے سی او نے مجھے کہا کہ فوجی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ میں نے جواب دیا سر جرنل صاب بھی تو لے رہے ہیں“۔