فیض نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا یہ تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ انہیں صرف اٹھارہ سو روپے ماہوار چاہئیں، بحث اس بات پر ہورہی تھی۔
تاریخ
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
فیض کی طرز فغاں آج ہماری روایت کا حصہ ہے۔ ہماری شعری تاریخ کا ایک قصہ ہے۔ جو اپنے عہد میں بھی مقبول تھی اور اب بھی کئی جانے پہچانے شاعروں کی آوازوں میں اس کے رنگ و آہنگ کو دیکھا جاسکتا ہے۔
فیض احمد فیض
فیض صاحب، اگر جوش گفتگو میں گاہے گاہے مجھ سے زیادتیاں ہوگئی ہوں تو مجھے معاف کر دیجئے۔ میں نے آپ سے اتنی ہی محبت کی جتنی دوسروں نے کی مگر میں ”اپنا آدمی“ بھی ہوں اور آج آپ سے آخری فرمائش کرنے آیا ہوں۔ ذرا ”نسیم صبح چمن“ سے کہہ دیجئے کہ میرے گھر میں، جہاں آپ کے سانسوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں ”یادوں سے معطر“ تو آئے مگر ”اشکوں سے منور“ نہ جائے۔
فیض کا آدرش
فیضؔ صاحب کی اچانک وفات پر ملک کے گوشے گوشے میں اور دوسرے ملکوں میں بھی جس گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا وہ ان کے دشمنوں کے لیے باعث ِ حیرت ہو تو ہو، عام لوگوں کے لیے ہرگز نہیں ہے۔
فیض انکل فیض
فیض صاحب سنجیدہ صفت انسان تھے مگر ان کی سنجیدگی میں بھی ایک عجیب طرح کی خوشگواری اور آسودگی محسوس ہوتی تھی۔
مارکس کے آخری سال: تازہ سوانح عمری میں دلچسپ انکشافات
نئے حقائق کی روشنی میں مارکس اپنے نظریات کی از سر نو تشکیل پر ہمہ وقت تیار رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کٹر قسم کا انقلابی نہیں تھا۔ مستو کے خیال میں مارکس کے بعد آنے والے مارکس وادیوں میں یہ خاصیت دیکھنے کو نہیں ملی۔ سوچ میں لچک کی غالباً بہترین مثال وہ جوابی خط ہے جو مارکس نے روسی انقلابی ویرازاسولچ کو لکھا۔ ویرا نے 1881ء میں مارکس کو خط لکھا اور اس خط میں ویرا نے روسی کسان طبقے کے دیہی کمیون (ایک طرح کی پنچائت: مترجم) بارے مارکس کی رائے مانگی۔ ویرا جاننا چاہتی تھی کہ کیا روسی انقلابی کسانوں کو منظم کرنے کی کوشش کریں یا مزدور طبقے میں ہی کام کریں جو حجم میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔
اکتوبر انقلاب اور انسان دوست سماج کا آدرش
اس سماج کی تعمیر کا اک آدرش تھا: ’ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک سماج‘۔ یہ وہ آدرش تھا جس کے حصول کی خاطر 20 ویں صدی میں لاکھوں کروڑوں لوگوں نے جدوجہد کی اور کئی بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ یوں 20 ویں صدی کمیونسٹ انقلابوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کی صدی قرار پائی۔
امید و نشاط کا شاعر…ساحر لدھیانوی
ساحرؔ نے اپنی شخصیت کا سارا گداز شاعری میں بھر دیا ہے اور شاعری کی ساری جادوئیت اپنے خط و خال میں جذب کر لی ہے۔ آئینہ سے آئینہ گر کا ابھرنا لطیفہ سہی لیکن ’تلخیاں‘ کا مطالعہ کیجئے تو اس کے مصنف کی روح بولتی دکھائی دے گی۔ مصنف سے باتیں کیجئے تو معلوم ہوگا کہ آپ اس کی نظمیں پڑھ رہے ہیں۔
محمد مقبول شیروانی: کشمیریوں کا مسیحا یا غدار
”شہید مقبول شیروانی“، کو پوسٹر پر چھپی تحریر کے مطابق 7 نومبر 1947ء کو 19 برس کی عمر میں، شمال مغربی سرحدی صوبے کے قبائلی حملہ آوروں نے مار دیا جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلی سرحدی جنگ تھی۔
کامریڈ ٹامس سنکارا: افریقی چی گویرا
34 سال قبل آج کے دن 15 اکتوبر 1987ء کو برکینا فاسو کے صدر ٹامس سنکارا کو فوجیوں نے گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا۔ 33 برس کی عمر میں اقتدار سنبھالنے والے سنکارا محض 37 برس کی عمر میں قتل کر دئیے گئے۔ انہیں براعظم افریقہ کے ”چی گویرا“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سنکارا ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ کامریڈ سنکارا نے صدر بننے کے کچھ ہی عرصے بعد کہا تھا ”انقلاب کا اصل مقصد سامراجیت کے غلبے اور استحصال کو شکست دینا ہے“۔