جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
شاعری
در امید کے دریوزہ گر
پھر پھریرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں
سرگوشیاں طاقت کی علامت ہیں
حجاب بہ چہرہ، خاموش چیخیں
زنداں کی ایک شام
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
سرحدیں
کس سے ڈرتے ہو کہ سب لوگ تمہاری ہی طرح
شہر ظلمات کو ثبات نہیں
اے نظام کہن کے فرزندو
ہے قلم ہاتھ میں کسی جنگجو کی جھلک رکھتا ہوں
دل میں آگ لیے لہروں کی تڑپ رکھتا ہوں
داستان دل دو نیم
اک حسیں گاؤں تھا کنار آب
بچوں کی سرکار
بڑوں کا راج تو صدیوں سے ہے زمانے میں
اپنی جنگ رہے گی
جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہیں