اگر ہمیں اس مسئلے سے نپٹنا ہے تو اس نظام کو لگام ڈالنی پڑے گی جو اس کا سبب ہے۔
سماجی مسائل
عورتوں کیخلاف تعصب میں پاکستان دنیا کا بد ترین ملک: 99.81 فیصد تعصبات کا شکار
رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جنسی تفریق میں کمی دیکھی گئی ہے مگر تعصبات کے حوالے سے صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یو این ڈی پی نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان تعصبات کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں۔
تحریکِ نسواں ہی تہذیب کو بربریت اور ماروی سرمد کو خلیل الرحمٰن قمر سے ممتاز کرتی ہے
جب عورتیں مرد کی سفلی انا کے دائرے سے نکل کر کسی آزادی کا اظہار کرتی ہیں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حجاب مخالف مظاہرہ: 24 سالہ یاسمان 10 سال کیلئے جیل میں
ہر دو حلقوں کا موقف منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے۔ ایک درست اور اصولی موقف یہ ہونا چاہئے کہ ریاست ایران اور سعودی عرب کی ہو یا فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی، ریاست کو حق نہیں کہ وہ لوگوں کے لباس کا فیصلہ کرے یا ان کے گھر کے اندر جھانکے۔ برقعہ پہننا چاہئے یا نہیں، اس پر بحث اسی وقت ہو سکتی ہے جب فرد کو بنیادی شخصی آزادی کا تحفظ ریاست کی جانب سے حاصل ہو۔
’اور ریپسٹ ہو تم‘: چلی کا فیمن اسٹ ترانہ اب اردو زبان میں
اس ترانے کی عالمی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں کو پدر سری نظام کا سامنا ہے اور ان کی جدوجہد عالمی یکجہتی کا تقاضا کرتی ہے۔
وزیر اعظم کے جنسی تعصب پر مبنی رویے اور خلیل الرحمٰن قمر کی عورت دشمنی میں کوئی فرق نہیں
سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کا بیان محنت کش اور کارکن عورت بارے ان کے جنسی تعصب پر مبنی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔
جب ’چھپاک‘ سے تیزاب کسی عورت کو زندہ درگور کر دیتا ہے
تیزاب پھینکنا خواتین پر تشدد کی ایک شیطانی شکل ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس تشدد کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ دیپیکا پڈوکون جیسی مرکزی دھارے کی گلیمرس اور مہنگی اداکارہ کیلئے فلم کا معاون فلمساز بننا اور مرکزی کردار نبھانا بہت زیادہ حوصلہ مانگتا ہے۔ فلم نے میگھنا گلز ار کی ہدایتکاری کے تاج میں ایک اور پنکھ لگا دیا ہے۔
پانچ مرلے سے بڑے گھروں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے
شہریوں کو چھت اورگھر کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے مگر ریاست ہی ملک ریاض کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔
بے حیائی کے سو سال
ثنا خوان ِ تقدیس مشرق عورت کے بھوکے پیٹ اور اس کی بھوکی گود میں بلکتے بچے کو دیکھ کر بے حیائی کا ماتم کرتے کبھی بھی دکھائی نہیں دئیے۔
روزمرہ کے مسائل: تاریخی عمارات کی دیواروں پر لکھنے کی عادت
بعض صورتوں میں تو کچھ عاشق حضرات نے اپنے موبائل نمبر بھی اس نیت سے دیواروں پر درج کر رکھے ہیں کہ ان سے رابطہ کیا جا سکے۔