نقطہ نظر


پاکستان میں میڈیا مارشل لا نافذ ہے: ناصر زیدی

پاکستان میں صحافت کبھی بھی آزاد نہیں رہی، 1947ء سے اب تک پاکستان میں پریس پر قدغنیں رہی ہیں۔ 1947ء سے 1957ء تک تو وہی قوانین رائج تھے جو برطانوی نوآبادیاتی دور کے قوانین تھے۔ بعد ازاں صحافیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ قوانین بنائے گئے لیکن آزادانہ صحافت کو کبھی بھی پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔ لیاقت علی خان کے زمانے میں بھی پریس پر پابندیاں رہیں، مشرقی پاکستان میں اکثریتی حکومتوں کو گرانے کیلئے میڈیا کا سہارا لیا گیا۔ مارشل لاء ادوار میں اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں، ترقی پسند اخبارات پر قبضہ کیا گیا، نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر تمام بڑے اخبارات کو حکومت کے قبضے میں لے لیا گیا۔

میکڈونلڈز اور مولانا

مسلم لیگ نواز، پی پی پی اور پی ٹی آئی یاتو فوج اور ملک ریاض کے پیج پر ایک نظر آئیں گے یا تبلیغی جماعت کے پیج پر۔ اتنا بھرپور کنٹرول تو کوئی امریکی ملٹی نیشنل بھی امریکی معاشرے میں حاصل نہیں کر سکی۔ مولانا نے تو میکڈونلڈائزیشن میں میکڈونلڈز کو بھی مات دیدی ہے۔

لیاقت بلوچ کے نام خط: بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد

بلوچ صاحب! تھوڑی سی وضاحت اس بابت بھی کر دیجئے کہ جب جماعت اسلامی ملک بھر میں دینی تعلیم دینے کے لئے اتنے بڑے بڑے مدرسے چلا رہی ہے، آپ نے دنیاوی تعلیم کے لئے احمد جبران بلوچ کو کینیڈا جیسے کافر ملک میں کیوں بھیج دیا؟

سری لنکا سماجی تصادم کے دہانے پر: کچھ سوالات، کچھ جوابات

عالمی تجزیوں کے مطابق جنوبی ایشیا انسانی حقوق کے پیمانوں پر دنیا میں بہت پیچھے ہے اور سری لنکا جیسے ملک میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ مبصرین کا خیال تو یہی تھا کہ اکثریتی بدھ مت اور اقلیتی تامل ہندو ؤں کے درمیان ایک لمبی خانہ جنگی سے، ملک سبق سیکھے گا اور تمام اقلیتوں سے بہتر سلوک کے لئے اقدامات کئے جائیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔

”میرا گھر دا سفر: لہندے پنجاب واپسی“: ایک تعارف

اسی کی دہائی میں ڈیرہ بابا نانک کی طرف شکار کھیلنے کے واقعات، پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات، دادا جی کے بھائی مہشندر سنگھ بوتالیہ کا 1970ء میں پاکستان آنا اور اپنے خاندان کے بارے میں مصنف کو تفصیلی معلومات سے آگاہ کرنا، لاہور کے مختلف علاقوں کا حال، گردوارہ ڈیرہ صاحب، لاہور ریلوے سٹیشن، لاہور کا عجائب گھر، ایچی سن کالج، سکھ دور کی شاندار حویلیاں اورانار کلی وغیرہ کا بیان، اس کتاب میں دلچسپ اور من کو موہ لینے والے انداز میں بیان ہوا ہے۔

’پاکستان میں طنز و مزاح پر بھی قانوناً پابندی ہے‘

یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس کے بعد یہ سیٹائر ہی نہیں بچتا، سیٹائر کا مقصد ہی یہی ہے کہ قاری جب تک پوری تحریر نہیں پڑھتا تب تک اس کے پلاٹ یا تھیم تک نہ پہنچ سکے۔ جب مرکزی بینر پر یہ واضح کر دیا جائے گا کہ جو کہانی، مضمون یا تحریر آپ پڑھنے جا رہے ہیں یہ سیٹائر ہے، حقیقت نہیں ہے، تو پھر اس کی ساری اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔