ایک روز اس دفتر کی رونقیں دو بالا ہو گئیں جب معلوم ہوا کہ احمد فراز اور فیض احمد فیض یہاں تشریف لا رہے ہیں۔ یہ سال 1982ء تھا۔ وہ دونوں عظیم شاعر ہمارے سینئر ساتھی اسد مفتی کی دعوت پر آئے تھے۔ دفتر میں انہی تنگ سیڑھیوں سے چڑھتے دونوں دفتر تشریف لائے اور دیر تک محفل جمی رہی۔
تاریخ
مور بی بی الوداع
وہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں جیتنے والی پاکستان کی پہلی خاتون تھیں۔ بھٹو مخالف تحریک کے دوران نسیم بی بی نے بھٹو اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف شعلہ بیان تقریروں کے باعث خاصی مقبولیت حاصل کی تھی۔ بی بی اپنے مضبوط اعصاب کے باعث جانی جاتی تھیں۔ غلام احمد بلور کے مطابق 1977ء میں جب حزب اختلاف نے بھٹو پر دباؤ ڈالنے کے لئے قومی اسمبلی سے استعفے پیش کرنے کا حتمی فیصلہ کیا تو سب سے پہلے بی بی نے اپنی دونوں نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ نسیم بی بی کو چار بار صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل تھا۔ وہ تین بار عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کی صدر اور کے پی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی منتخب ہوئیں۔
اگر میرے نانا فیض احمد فیض زندہ ہوتے تو فلسطین کے لئے آواز اٹھا رہے ہوتے
میرے دل میں بھی فلسطین کے لئے ایسا ہی درد ہے۔ اگر کسی بھی شخص میں انسانیت اور ضمیر ہے تو اسے بھی یہ درد ایسے ہی شدت سے محسوس ہوتا ہو گا۔
دور غلامی کی یادگاریں
اس پس منظر میں آج دنیا میں آزادیوں کی واحد امید کی کرن ترقی پسند تحریک ہے مگر شاید کچھ دبی دبی سی ہے۔
آئی اے رحمان قدرے جلدی چلے گئے
رحمان صاحب کے نظریات اور ان کے پختہ ایقان اور ان کی جدوجہد کو ایک کتابی صورت میں یکجا کرنا ضروری ہے۔
آئی اے رحمن نصف صدی تک ہمارے اجتماعی ضمیر کے نگہبان بنے رہے
ہر چیز چاہے کتنی ہی سنگین ہو یا ممکنہ طور پر ان کیلئے خطرناک ہی کیوں نہ ہو، ان کے لئے چھوٹی سی بات تھی جس کا کبھی انہوں نے صلہ بھی طلب نہ کیا۔ ”وئیو پوائنٹ“ کے مدیر مظہر صاحب بھی ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ جب میں اسکاٹ لینڈ میں تھا، اچھے خاصے ڈاک خرچ کے باوجود ”وئیو پوائنٹ“ میرے پتے پر بدستور موصول ہوتا رہا حالانکہ اس وقت یہ ہفت روزہ دیوالیہ ہو چکا تھا اور ہم اس کے لئے مفت لکھا کرتے تھے۔ ”وئیو پوائنٹ“ سے وابستہ لوگوں کا یہی تو اعلیٰ اخلاقی معیار تھا۔
منٹو: ایک نفسیاتی مطالعہ
منٹو بھی انہیں فنکاروں کی صف میں کھڑے ہیں جن کا ذکر فرائڈ کر رہے ہیں۔ منٹو کی کہانیاں پڑھ کر کوئی شک نہیں رہتا کہ وہ ایک ماہر نفسیات دان ہیں۔ افسانہ چاہے کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہوں، منٹو کے کر دار کتا ب کے صفحوں سے اچھل کر قاری کے دل میں پیو ست ہو جاتے ہیں اور کہا نی ختم ہونے کے کئی گھنٹوں اور دنوں بعد تک پڑھنے والا سوچتا رہتا ہے کیا کر پال کور(موذیل) فسادیوں سے جان چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی؟ اور تر لو چن سنگھ کا کیا بنا؟ جب نیستی (لائسنس) کو کمیٹی نے اپنا جسم فروش کرنے پر مجبور کر دیا تو اس کے بعد اس پر کیا گزری؟ سو گند ھی (ہتک) اور اس بے نام ویشیا (سو کینڈل پاور کابلب) کا کیا بنا جنہوں نے اپنی حالت سے تنگ آ کر ایسا قدم اٹھایا جس کا انجام عبرت ناک ہو سکتا تھا؟
ہم محنت کش یوم مئی کیوں مناتے ہیں؟ تاریخ کی روشنی میں
آئیے 2021ء کے یوم مئی پر تجدید عہد کریں کہ قربانیوں، جدوجہد اور یکجہتی کے ساتھ ساتھ اس سرمایہ داری جاگیرداری نظام کے خاتمے اور ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے جدجہدجاری رہے گی۔
بابائے سوشلزم کا طویل سفر
شیخ محمد رشیداپنی پوری زندگی نہ صرف کسانوں اور مزدوروں کے لئے سرگرم رہے بلکہ اصلاح پسند سوشلسٹ پالیسیوں پر قائم بھی رہے۔ ان کا خیال تھا کہ معاشرتی اداروں کی ترقی سوشلزم کی منزل کی طرف لے جائے گی بشرطیکہ اس کے لئے کام کیا گیا ہو لہذا انہوں نے انقلاب کی بجائے اصلاحات کے ذریعہ سوشلسٹ جمہوریت کے لئے تگ و دو کی۔ اسی لئے وہ مختلف کسان تنظیموں، سیاسی جماعتوں، اور حکومتوں کا حصہ رہے۔
کافرِ عشقم
1947ءکے ان ہولناک دنوں میں، انُ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں، جنہوں نے اپنی جان کی بازیاں لگا کر دوسرے مذہب کے لوگوں کی جانیں بچائیں، کئی ایسے ضرور ہونگے جن کی سانسوں میں اقبال کی شاعری رچی بسی تھی۔