حلقہ بندیوں کے انتخابات جو نئے آئین کا مسودہ تیار کریں گے اور صدارتی پرائمری انتخابات 4 جولائی کو ہونگے جبکہ قانون سازوں کا انتخاب 21نومبر کو ہو گا۔

حلقہ بندیوں کے انتخابات جو نئے آئین کا مسودہ تیار کریں گے اور صدارتی پرائمری انتخابات 4 جولائی کو ہونگے جبکہ قانون سازوں کا انتخاب 21نومبر کو ہو گا۔
جموں کشمیر میں آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کرنے والی طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی فیس بک کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام اکاؤنٹس فی الفور بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کشمیریوں کے ہیرو مقبول بٹ شہید کے خلاف اس طرح کا رویہ فوری ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مرحوم کے ساتھی ان کو خراج تحسین پیش کریں گے۔
ایشین مارکسسٹ نے اس عمل کو قابل تشویش اور باعث حیرت قرار دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایسا کون ہے جو پی ٹی ایم قیادت کو علی وزیر کا نام لینے سے روک رہا ہے۔
آئی او سی نے 2008ء میں بھی ہمیں سننے سے انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اولمپکس انسانی حقوق میں بہتری کیلئے سود مند ثابت ہونگے۔
میر افضال سلہریا کی ساری زندگی جدوجہد سے تعبیر ہے اور جس طرح اپنی موت سے چند گھڑیاں پہلے تک وہ اس خطے کی حقیقی آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں شامل تھے وہ آزادی اور انقلاب کے کارواں میں شریک تمام انقلابیوں اور آزادی پسند کارکنوں کیلئے ایک یہی پیغام چھوڑ گئے ہیں کہ آزادی اور انقلاب کے اس کارواں کا سفر جاری رکھا جائے، اسے کسی صورت رکنے نہ دیا جائے، نظریات سے اپنے آپ کو لیس کیا جائے اور حقیقی انقلابی متبادل کی تعمیر کے سفر کو تیز تر کرتے ہوئے اس خطے سے محکومی اور استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کرتے ہوئے حقیقی آزادی سے اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو فیضیاب کرنے تک اس جدوجہد کو جاری و ساری رکھا جائے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور ان کی زندگی بھر کے شوقِ موسیقی نے انہیں اپنے تمام رفقا میں منفرد بنا دیا تھا۔
یو ایم ٹی کے سامنے احتجاج کرنے کے مقدمے میں ملوث 7 طلبہ کی ضمانتوں کی درخواستیں منظور نہیں ہو سکیں۔
’پولیس نے مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا، لیکن مقدمہ درج ہو گیا ہے اور ہمیں توقع ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کرتے ہوئے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
2015ء میں جب انکی جماعت برسر اقتدار آئی تو اس کے بعد انہوں نے روہنگیا مسلم آبادی کی نسل کشی میں مصروف فوجی جرنیلوں کی پشت پناہی جاری رکھی۔ نیو لبرل پالیسیوں اور سامراجی لوٹ مار کی بڑی حصہ دار فوج اور ریاست کو ہر طرح کا ظلم اور جبر روا رکھنے کی کھلی اجازت دیئے رکھی۔ آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف کی سماعت کے دوران فوجی اقدامات کی کھل کر حمایت کی تھی۔