ہم دل و جاں لٹا کے آئے ہیں
شاعری
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو: معین احسن جذبی کی ایک نظم
نتیجہ یہ ہے کہ اخلاقی اور انسانی قدروں کی قدرو منزلت کے بجائے معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پارہی ہے اور بھائی چارے کی جگہ ہر چیز کو تنگ نظری کی عینک سے دیکھا جارہاہے۔ شعر وادب کے گرتے ہوئے معیار پر جذبی کا تبصرہ آج بھی اسی طرح درست نظرآتا ہے جس طرح ستر سال پہلے تھا:
یہاں نہ شعر سناؤ، یہاں نہ شعر کہو
خزاں پرستوں میں گلہائے تر کی قیمت کیا
پاکستان کا مطلب کیا روٹی کپڑا اور دوا
ملیں لٹیروں سے لے لو
ساحر لدھیانوی کی نظم، چکلے: ”مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی“
نظم چکلے ایک احتجاجی نظم ہے، جس میں ساحر نے سماج کے ان لوگوں سے احتجاج کیا ہے جو خودی کے محافظ، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں۔
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے، امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے، امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
دریچہ: فیض احمد فیض کی ایک نظم
”دریچہ“ دنیا کی تمام قید و بند کے درمیان امید کی روشنی اور رجائیت کی ایک سبیل ہے۔
سر مقتل کی ضبطی پر
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا
جوش ملیح آبادی کی ایک نظم: آدھی رات کی پکار
جوش کا نام آتے ہی متعدد رویے اور بے شمار گمراہ کن مفروضے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس لئے نہیں کہ جوش یا ان کی شاعری سے ان کو علاقہ تھا یا ہے بلکہ اس لئے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں جوش وہ واحد شاعر ہیں جن کی تنقید کے لئے بہت مختلف اور خصوصی پیمانے اور رویے وضع کئے گئے ہیں۔ جوش دراصل تھے ہی ایسے کہ اگر آپ ان کو نہیں جانتے الگ بات ہے لیکن اگر آپ ان سے یا ان کی شاعری سے متعارف ہو جائیں تو پھر ”ان کے ہو جائیں گے“ یا ”ان کے درپے ہو جائیں گے۔“
سلام لوگو!
تم ہی نے باطل کا سر جھکایا
اے شریف انسانو: پاک و ہند جنگ پر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم
ساحر کا ذہن بچپن سے ہی برطانوی حکومت اور سامراجیت کے خلاف ایک انقلابی اور باغی شکل اختیار کر چکاتھا، یہی وجہ تھی کہ ان کا مارکسی اور سوشلسٹ ذہن ان کی شاعری میں بھی کام کرتا رہا۔