تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
دوسری عالمی جنگ کا منظر نامہ بھی اس غزل کا پس منظر بیان کر رہا ہے۔ سڑک پر انسانیت کا ایک بے جان جسم چادر میں ملبوس پڑاہے۔
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
فہمیدہ ریاض کا شمار ملک کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صنفی اور سماجی مساوات کے لئے ہر قدم پر جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ انہیں ہمیشہ ایک باشعور اور ترقی پسند شاعرہ کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا
فقیرانہ روش رکھتے تھے
میری آنکھوں، میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
حسن نعیم (1991-1927ء) بیسویں صدی کے ان ترقی پسند شعرا میں شامل تھے جنہوں نے انجمن تر قی پسند مصنفین کی نظریاتی اساس کواپنے فن سے جلا بخشی۔
اب تو تم مجھے جان لو