یہ سارا کھیل اسی رشک ماہتاب کاہے
شاعری
رات کے غار سے اک در نکلا
امن کی فاختہ اڑتی کیسے
فیض احمد فیضؔ کی نذر
رکھو حصارِ ذہن میں قیصر ؔ تمام لفظ
بالیں دے حقوق
ہووے جمھر جاہ جاہ بالیں دی پیکاسو دی تصویر بنے
شانتی کے نام!
کتنی اونچی باڑھ چنو گے ہم دونوں کے بیچ
ڈو سال دا عرصہ گزر گئے چلو کجھ تاں ڈس جو تئیں کیتے ؟
ڈس اے نالائقی کیندی ہے کیا اے گھاٹا وی میں کیتے؟
کل میرا ہے!
جن کے لہجے میں خدائی کا غرور
غزل: آئے ہو اس طرف تو ملاقات بھی تو ہو!
میں نے بھی اپنے خون سے جیتا ہے یہ محاز
سلطان! آپ دو جنگیں ہار چکے
وجہ شکست جو بنا وہ دماغ مر چکا۔
سانحہ
باقی ماندہ روز و شب