یہ دونوں مظاہر مراعات یافتہ لوگوں کی بے ہودگی کا اظہار ہیں مگر دونوں وائرل ہیں۔ پاکستان میں فن موسیقی دم توڑ رہا ہے۔ ایسے ایسے ہیرے مٹی چاٹ رہے ہیں کہ انسان خون کے آنسو پی کر رہ جاتا ہے۔ ادہر لندن میں مقیم چاہت فتح علی خان کی مقبولیت کا واحد راز یہ ہے کہ انہوں نے فن موسیقی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا لیکن چونکہ وہ پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں کی طرح مفلس نہیں، مراعات یافتہ ہیں۔ اس لئے موسیقی کے ساتھ جو مرضی کریں، فرق نہیں پڑتا…بس وائرل ہونا چاہئے۔ یہی حال پاکستان تحریک انصاف کا ہے۔ قیادت ارب پتی ہے۔ سپورٹر یا مغربی ممالک میں رہ رہے ہیں یا پاکستان کی اچھی ہاؤسنگ سوسا ئٹیوں میں۔
Month: 2022 اگست
پاکستان ہو یا ہندوستان، مذہبی جنونیت ملیریا ہے
شرمناک بات ہے کہ اس فلم پر تنازعہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب ہندوستان پاکستان اپنی اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔ پاکستان میں اس بات پر خوشی منائی جا رہی ہے کہ سلمان رشدی پر حملہ ہوا ہے جبکہ تحریک لبیک کے ڈر سے سرمد کھوسٹ کی فلم ریلیز نہیں ہو پا رہی۔ ادہر ہندو طالبان بضد ہیں کہ عامر خان غدار ہے اس لئے’لال سنگھ چڈھا‘ کا بائیکاٹ کیا جائے۔ سرحد کے آر پار پاگل پن کی یہ محض تازہ مثالیں ہیں۔ جس طرح ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے ذریعے منٹو نے یہ پوچھا تھا کہ پاگل کون ہے، وہ جو لاہور کے پاگل خانے میں قید ہیں یا جنہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان کو دے کر بشن سنگھ انڈیا کے حوالے کر دیا ہے؟ اسی طرح، لال سنگھ چڈھا بھی کچھ سوال پوچھ رہا ہے اور معصومیت سے آئینہ لئے کھڑا ہے جس میں ہندو طالبان اپنا چہرا دیکھ کر شور مچا رہے ہیں۔
اگر معیشت عوام دوست ہوتی تو ڈالر ریٹ اہم نہ ہوتا
جتنی دیر تک ہم معیشت کو لاحق بڑے مرضوں کا علاج کرنے سے کتراتے رہیں گے، تب تک ہماری معیشت کا شمار دنیا کی بدترین معیشتوں میں ہوتا رہے گا اور یہاں دنیا کی تیسری سب سے بڑی افراط زر کی شرح رہے گی۔ جب ہم اپنی معیشت کو بہتر طریقے سے چلانے لگیں گے، شہریوں کے معاشی حقوق پر توجہ دیں گے، انصاف فراہم کریں گے، اُن امیر لوگوں پر ٹیکس لگائیں گے جو ہر وقت ٹیکس بچانے کے چکر میں ہوتے ہیں،ڈالر کی قیمت اہم نہیں رہے گی۔
نومبر میں 8 ارب واں بچہ پیدا ہو گا، 6 سال میں بھارت چین سے بڑا ملک ہو گا
اقوام متحدہ کی تحقیق کی بنیاد پر اخبار کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے مگر اضافے کی رفتار پہلے سے کم ہو۔ عالمی سطح پر، 1950ء میں فی عورت 5 بچوں کو جنم د ے رہی تھی۔ اب یہ تعداد 2.1 ہو چکی ہے۔
اُدھر ہوتے تو…!
امی کریب کے سفید ڈوپٹے کو اپنی آنکھ کے کونے پر ملتے ہوئے بڑبڑائے جارہی تھیں۔ ۔ ۔ پھر وہی شور برپا ہوا، اگست کے مہینے والے”اخگر“کی آواز کی گونج نے امی کی دھیمی مگر حواس باختہ بڑبڑاہٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ”تم بے قدرے لوگ اگر یہاں نہ آتے تو وہاں پتا ہے کہ کتنا برا حال ہوتا۔ وہاں تم چپڑاسی لگے ہوتے ‘سمجھے کچھ‘ چپڑاسی“۔ مجھے لگا کہ لوہے کی رگڑ سے شل ہاتھ بے جان ہورہے ہیں، میرے خالی دماغ میں چلنے والی لہریں کسی طوفان کی زد میں آکر بہت تیز ہوکر اوپر نیچے اور دائیں بائیں گھومنے لگیں۔ وہاں ”بندہ“ چپڑاسی لگ جاتا ہے !!ہیں ہیں تو پھر یہ چپڑاسی کیسے ”اِدھر“آگیا؟ کیا یہاں پر ساری چپڑاسی ”اُدھر“ کے ہیں؟ اگریہ ”اُدھر“ کے ہیں تو پھریہ ”یہاں“ کیا کررہے ہیں؟میرا سر اور تیزی سے گھوما، ہاتھ اکھڑنے لگے۔ پاﺅں‘ اس بڑے ہوئے چبوترے سے پھسل رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھاکہ اب میرا یہاں کھڑا رہنا مشکل ہے۔ ۔ ۔ اوریہ کیا؟ میں تو اُڑرہا ہوں…. ہوا میں ….چھپاکے کی آواز آتی ہے۔ ۔ اخگرصاحب تھوک میں لپٹے لفظوں کی دھول اڑاتے ہیں….تم۔ ۔ تم ”آزادی“کی قدر نہیں کرتے، شکوے کرتے ہو!ادھر ہوتے توتم چپڑاسی ہوتے!
جی سی یو کے وائس چانسلر اپنی یونیورسٹی کی عمارت بھی نہیں پہچان سکتے؟
دراصل جس عمارت کی تصویر گوگل نے استعمال کی وہ کراچی کا فرئیر ہال تھا۔
خیبر پختونخوا میں طالبان کی آمد اور حملے: امن کیلئے احتجاج
لوئر دیر میں رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ملک لیاقت علی پر حملہ، مٹہ اور سوات کے دیگر علاقوں میں پولیس پر حملوں سے خطے میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ کے پی کے مختلف علاقوں میں طالبان کی موجودگی اور دہشت گردی کے واقعات کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات واضح
یورپی یونین کے مذاکرات کاروں کی جانب سے امریکہ اور ایران کے دستخط کرنے کیلئے حتمی مسودے کا متن تیار کیا ہے۔ کئی مہینوں کی مسلسل ناکامی کے بعد اب ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
سوات میں تحریک طالبان کی چیک پوسٹ قائم: علاقے میں خوف و ہراس
مقامی صحافی محبوب علی کے مطابق سوات میں 200 سے 250 عسکریت پسند موجود ہیں اور یہ ایک معاہدہ کی بنیاد پر پاکستان میں ہیں۔
تحریک جموں کشمیر: موقع پرستوں کا کردار اور انقلابی ذمہ داریاں
مظلوم قومیتوں کے کاسا لیس حکمران طبقے کا تاریخی کردار قومی سوال کو اپنی حصہ داری کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لیے تحریک پنپنا شروع کرتی ہے تو یہ دوست کا روپ دھار کر قومی سوال کو اجاگر کرنا شروع کر دیتا ہے۔