Month: 2022 اگست


’آئی ایم ایف پاکستان سے قرضوں کی واپسی بند کرے‘: کل لاہور میں احتجاج ہو گا

سیکرٹری جنرل پاکستان کسان رابطہ کمیٹی فاروق طارق نے سوشل میڈیا پر مظاہرے میں عوام سے شرکت کی اپیل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے 2022ء کے آخر تک پاکستان سے 38 ارب ڈالر کی رقم قرضوں کی مد میں وصول کرنی ہے۔ پاکستان کو نئے قرضوں میں جکڑنے کیلئے شرائط منوانے کی بجائے پہلے سے موجود قرضہ جات کی وصولی بند کی جانی چاہیے۔

خیبر پختونخواہ:’10 سال پہلے روز گن شپ ہیلی کاپٹر مارنے آتے تھے، اب سیلاب سے بچانے کوئی نہیں آیا‘

رکا ہوا پانی نکالنے اور تعمیر نو و بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوری طور پر تو رکا ہوا پانی نکالنے کیلئے واٹر پمپنگ کرنے کے ساتھ ساتھ بند نالوں اور ندیوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ تعمیر نو اور بحالی کیلئے فوری طور پر مواصلات کے شعبے کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب کی نظر ہونے والے مکانات کی تعمیر کرنے کے علاوہ دیگر ریلیف کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع کرنی چاہئیں۔ اندرون و بیرون ملک سے جمع ہونے والی امدادی رقوم کو بنا خرد برد کے سیلاب زدگان کی بحالی و آبادکاری پر صرف کیا جانا چاہیے۔

لاہور: سیلاب زدگان کیلئے ریگل چوک میں لیبر ریلیف کیمپ

4 رضاکار ڈاکٹروں کا ایک گروپ 5 ساتھیوں کے ساتھ 500,000 روپے سے زائد ادویات کے ساتھ کل رات لاہور سے متاثرہ سرائیکی وسیب کے اضلاع میں میڈیکل کیمپ کے لیے روانہ ہوا، ہم نے اس میں حصہ ڈالا، ہم نے 3 دنوں میں بلوچستان، سندھ اور سرائیکی وسیب میں امدادی کاموں کے لیے مجموعی طور پر 20 لاکھ روپے سے زائد کی رقم جمع کی ہے، کچھ رقم پہلے ہی خرچ کر دی گئی ہے اور دوسری کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

پانی بھی ہمیں ملتا ہے سیلاب کی صورت!

اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب رائج الوقت سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کا یہ بنیادی معاشی اور سیاسی ڈھانچہ ہے جس میں کسی بھی چیز کے پیدا کرنے، تعمیر کرنے اور خریدنے کا مقصد محض سرمایہ کاروں کے منافع جات میں اضافہ اور ایک فی صد حکمرانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہے نہ کہ 99 فی صد انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہے۔

’سرائیکی خطہ مکمل تباہ ہو گیا ہے، حکومت اور بڑی سیاسی جماعتیں غائب ہیں‘

جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ دو مرکزی اضلاع ڈی جی خان اور راجن پور کی تمام تحصیلیں سیلاب کی زد میں ہیں، مجموعی طو رپر کوئی ایسی جگہ نہیں جو محفوظ ہو، ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ شہروں تحصیل ہیڈکوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کو کسی حد تک پانی سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے، اکثر شہروں میں بھی پانی داخل ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے نقصانات نہیں ہوئے۔ باقی تمام دیہات اور شہروں کے نواحی قصبے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، مکانات پانی میں ڈوب کر گر چکے ہیں۔ لوگوں کا سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اور لوگوں کی حالت اس وقت بہت تکلیف دہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا زمینی صورتحال سے اس لئے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ابھی تک حکومتی ادارہ کوئی بھی سیلاب متاثر ہ علاقوں تک مکمل رسائی ہی حاصل نہیں کر سکا ہے، ہواؤں میں ہی اعداد و شمار بنائے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔