اٹھ کرتیا اٹھ وے، اٹھن دا ویلا

اٹھ کرتیا اٹھ وے، اٹھن دا ویلا
9 فروری پاکستانی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب وقت کے آمر نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے طلبہ کا جمہوری اور بنیادی حق چھینا تھا۔
”حکمران اشرافیہ بائیں بازو کے نظریات سے خوفزادہ ہیں، نیو لیفٹ سے جمود کو خطرہ ہے۔ ہم ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے جو ہمارے آئینی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ اس فسطائی حکومت کے خلاف ہتھیار ڈالنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ہم ایک بہتر مستقبل کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اور اس کیلئے ہم اس وقت قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔“
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے میانمار میں ہونیوالی فوجی بغاوت اور احتجاج پر ریاستی کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی ہے۔ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کئے جانے کی اطلاعات کے بعد دنیا بھر سے سوشل میڈیا پر میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
ووٹنگ میں ابھی اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آندریز اراؤز کے ساتھ صدارتی امیدوار کے دوڑ میں قدامت پسند بنک کار گیلرمولاسو اور مقامی ماحولیاتی کارکن یاکوپیریز میں سے کس کا مقابلہ ہو گا۔
آج سکرینوں پر نظر آنے والی تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کی مہان قیادتیں طلبہ یونین پر عائد پابندی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سالوں سے طلبہ نے اپنے اس جمہوری حق کے لیے جدوجہد کا شاندار آغاز کیا ہے، جسے ابھی اور منزلیں طے کرنی ہیں۔
علی وزیر جو پی ٹی ایم کے اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور پی ٹی ایم کے بڑے جلسوں کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کرنے کے علاوہ ریاست جبر اور استبداد کے خلاف علی وزیر نے سب سے جرات مندانہ کردار ادا کیا ہے۔ وہ وزیرستان سے بھاری اکثریت سے ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ اس وقت وہ کراچی کے مقام پر دو ماہ قبل پی ٹی ایم کا جلسہ منعقد کرنے اور ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں۔ ان کے ساتھ گرفتار دیگر ساتھیوں کی ضمانتیں منظور ہوگئی ہیں لیکن علی وزیر کی درخواست ضمانت مسترد ہو چکی ہے۔
گورمکھی میں شائع ہونے والے اس اخبار کے بعض مضامین کو شاہ مکھی رسم الخط میں قارئین جدوجہد کے لئے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے۔
ترقی پسند طلبہ تنظیموں کی جانب سے حکمران طبقات کی اسی سرد مہری کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر 9 فروری کو یوم سیاہ کے طور پر منانے اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا۔
”مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ایک علاقائی مسئلہ ہے جس کا حل بھی علاقائی ہے اور اسے کوئی بیرونی طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔“